مختصر جواب:
مفصل جواب:
معاویہ کے مرنے اوریزید کے خلیفہ بننے کے بعد ظالمین سے جنگ اور اسلامی حکومت تشکیل دینے کے لئے (پہلے زمانے سے زیادہ) حالات فراہم ہوگئے تھے اور آپ نے اس سلسلہ میں کچھ اقدام کئے :
الف: یزید کی بیعت کو ٹھکرادینا (اورخلافت کے لئے یزید کا مستحق نہ ہونا)
امام حسین علیہ السلام، یزید کو کسی بھی صورت میں خلافت کے لائق نہیں سمجھتے تھے اور خود کو خلافت کے لئے سب سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے اسی وجہ سے آپ نے یزید کی بیعت نہیں کی اور اس کی حکومت کو جائز قرار نہیں دیا ۔
یہی وجہ ہے کہ جب مدینہ میں معاویہ کے مرنے کی خبر پہنچی اور والی مدینہ نے امام کو اپنے دربارمیں بلایا ۔ اس وقت امام نے عبداللہ بن زبیر کے جواب میں جب اس نے پوچھا کہ کیا کروگے؟ تو آپ نے فرمایا: کبھی بھی یزید کی بیعت نہیں کروں گا، اس لئے کہ امر خلافت میرے بھائی حسن کے بعدصرف میراحق ہے ۔ انی لا ابایع لہ ابدا، لان الامر انما کان لی من بعد اخی الحسین(١) ۔
اسی طرح والی مدینہ سے فرمایا:
انا اہل بیت النبوة ومعدن الرسالة ومختلف الملائکة… ویزید رجل فاسق شارب الخمر، قاتل النفس المحرمة، معلن بالفسق، ومثلی لا یبایع لمثلہ۔
ہمارا تعلق خاندان نبوت سے ہے اور ہم معدن رسالت ہیں اور ہمارے گھر فرشتوں کی آمدو رفت رہتی ہے…جب کہ یزید فاسق، شراب خور اور بے گناہوں کا قاتل ہے، یزید ایسا شخص ہے جو جو علنا فسق وفجور کرتا ہے اسی وجہ سے مجھ جیسے شخص اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا (٢) ۔
اسی طرح جب مروان بن حکم، یزید کی بیعت کے لئے امام سے اصرار کررہاتھا تو امام نے قاطعیت کے ساتھ فر مایا:
وعلی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید ولقد سمعت جدی رسول اللہ یقول: الخلافة محرمة علی آل ابی سفیان۔
جب امت اسلامی یزید جیسے کی حکومت میں گرفتار ہوجائے تو اسلام کا فاتحہ پڑھ دیناچاہئے میں نے اپنے داد رسول خدا سے سناہے کہ آپ فرماتے تھے: خلافت ابوسفیان کے خاندان پر حرام ہے (٣) ۔
درواقع امام اس جملہ کے ذریعہ یزید کی حاکمیت کی گہرائی کو ظاہر کررہے ہیں اور رسول اسلام کے کلام کو بعنوان گواہی بنا کر ابوسفیان کی اولاد پر خلافت کے امور کو حرام بتا رہے ہیں۔
ایک دوسرے کلام میں امام حسین اپنے بھائی محمد حنفیہ کومخاطب کرتے ہوئے دوسری مرتبہ یزیدکی بیعت (ہرقیمت پر)نہ کرنے کی تاکید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
یااخی ! واللہ لو لم یکن فی الدنیا ملجا و لا ماوی، لما بایعت یزید بن معاویة۔
ائے میرے بھائی ! خدا کی قسم اگر پوری دنیا میں مجھے کہیں بھی جائے امن نہ ملے تو پھر بھی میں یزید بن معاویہ کی بیعت نہیں کروں گا (٤) ۔
ب)خلافت کے لئے اپنے آپ کو زیادہ مستحق سمجھنے کی تصریح
امام حسین یزید کو خلافت کا مستحق نہیں سمجھتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ اسلامی حاکمیت و ولایت کے لئے اپنے آپ کو سب سے زیادہ لایق سمجھتے تھے یعنی امام ان جملوں کے ذریعہ اسلامی حکومت ،تشکیل دینے اور خلافت کی ذمہ داری کوقبول کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے ۔
امام حسین علیہ السلا م نے حر کے لشکرکے سامنے عصر کی نماز کے بعد اپنے خطبہ میں فرمایا:
ایھا الناس اناابن بنت رسول اللہ و نحن اولی بولایة ھذہ الامور علیکم من ھولاء المدعین ما لیس لھم۔ ائے لوگو!میں رسول خداکی بیٹی کا فرزند ہوں، ہم اس ولایت کے تمہارے اوپر(اور مسلمین کی امامت)زیادہ مستحق ہیں ان جھوٹے دعوایداروں سے (٥) ۔
یہ سب باتیں ان باتوں کے علاوہ ہیں جو امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کی زندگی میں(جبکہ وہ ولایت عہدی کے مسئلہ کو یزید کے لئے بیان کررہا تھا) بیان کی تھیں اور اپنے آپ کو امر خلافت کے لئے سب سے زیادہ مستحق بتا یاتھا (ان باتوں کو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں) ۔
ج)کوفیوں کی دعوت پر لبیک کہنا
امام حسین علیہ السلام کی کوششوںمیں سے ایک کوشش اسلامی حکومت کی تشکیل اور یزید کی نامشروع حکومت کے خلاف کوفیوں کی رہبری کی دعوت کو قبول کرنا تھا ۔
اسی لئے امام حسین نے کوفہ میں اپنے سفیراور نمائندہ جناب مسلم بن عقیل کو بھیجا تاکہ ان کی دعوت کی اہمیت کو سمجھا جائے اور ان سے بیعت لی جائے ، اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام) اسلامی اور الہی حکومت کو تشکیل دینے کا مصمم ارادہ کرچکے تھے ۔
کوفہ حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ اور ان کے چاہنے والوںکا مرکز تھااسی وجہ سے امام حسین چاہتے تھے کہ اس شہر کو اسلامی قیام کا مرکز قرار دیںاور اس جگہ سے اپنے انقلاب کی رہبری کریں اور پھر اس انقلاب کو دوسرے شہروں میں پھیلائیں (6) ۔
الف: یزید کی بیعت کو ٹھکرادینا (اورخلافت کے لئے یزید کا مستحق نہ ہونا)
امام حسین علیہ السلام، یزید کو کسی بھی صورت میں خلافت کے لائق نہیں سمجھتے تھے اور خود کو خلافت کے لئے سب سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے اسی وجہ سے آپ نے یزید کی بیعت نہیں کی اور اس کی حکومت کو جائز قرار نہیں دیا ۔
یہی وجہ ہے کہ جب مدینہ میں معاویہ کے مرنے کی خبر پہنچی اور والی مدینہ نے امام کو اپنے دربارمیں بلایا ۔ اس وقت امام نے عبداللہ بن زبیر کے جواب میں جب اس نے پوچھا کہ کیا کروگے؟ تو آپ نے فرمایا: کبھی بھی یزید کی بیعت نہیں کروں گا، اس لئے کہ امر خلافت میرے بھائی حسن کے بعدصرف میراحق ہے ۔ انی لا ابایع لہ ابدا، لان الامر انما کان لی من بعد اخی الحسین(١) ۔
اسی طرح والی مدینہ سے فرمایا:
انا اہل بیت النبوة ومعدن الرسالة ومختلف الملائکة… ویزید رجل فاسق شارب الخمر، قاتل النفس المحرمة، معلن بالفسق، ومثلی لا یبایع لمثلہ۔
ہمارا تعلق خاندان نبوت سے ہے اور ہم معدن رسالت ہیں اور ہمارے گھر فرشتوں کی آمدو رفت رہتی ہے…جب کہ یزید فاسق، شراب خور اور بے گناہوں کا قاتل ہے، یزید ایسا شخص ہے جو جو علنا فسق وفجور کرتا ہے اسی وجہ سے مجھ جیسے شخص اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا (٢) ۔
اسی طرح جب مروان بن حکم، یزید کی بیعت کے لئے امام سے اصرار کررہاتھا تو امام نے قاطعیت کے ساتھ فر مایا:
وعلی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید ولقد سمعت جدی رسول اللہ یقول: الخلافة محرمة علی آل ابی سفیان۔
جب امت اسلامی یزید جیسے کی حکومت میں گرفتار ہوجائے تو اسلام کا فاتحہ پڑھ دیناچاہئے میں نے اپنے داد رسول خدا سے سناہے کہ آپ فرماتے تھے: خلافت ابوسفیان کے خاندان پر حرام ہے (٣) ۔
درواقع امام اس جملہ کے ذریعہ یزید کی حاکمیت کی گہرائی کو ظاہر کررہے ہیں اور رسول اسلام کے کلام کو بعنوان گواہی بنا کر ابوسفیان کی اولاد پر خلافت کے امور کو حرام بتا رہے ہیں۔
ایک دوسرے کلام میں امام حسین اپنے بھائی محمد حنفیہ کومخاطب کرتے ہوئے دوسری مرتبہ یزیدکی بیعت (ہرقیمت پر)نہ کرنے کی تاکید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
یااخی ! واللہ لو لم یکن فی الدنیا ملجا و لا ماوی، لما بایعت یزید بن معاویة۔
ائے میرے بھائی ! خدا کی قسم اگر پوری دنیا میں مجھے کہیں بھی جائے امن نہ ملے تو پھر بھی میں یزید بن معاویہ کی بیعت نہیں کروں گا (٤) ۔
ب)خلافت کے لئے اپنے آپ کو زیادہ مستحق سمجھنے کی تصریح
امام حسین یزید کو خلافت کا مستحق نہیں سمجھتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ اسلامی حاکمیت و ولایت کے لئے اپنے آپ کو سب سے زیادہ لایق سمجھتے تھے یعنی امام ان جملوں کے ذریعہ اسلامی حکومت ،تشکیل دینے اور خلافت کی ذمہ داری کوقبول کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے ۔
امام حسین علیہ السلا م نے حر کے لشکرکے سامنے عصر کی نماز کے بعد اپنے خطبہ میں فرمایا:
ایھا الناس اناابن بنت رسول اللہ و نحن اولی بولایة ھذہ الامور علیکم من ھولاء المدعین ما لیس لھم۔ ائے لوگو!میں رسول خداکی بیٹی کا فرزند ہوں، ہم اس ولایت کے تمہارے اوپر(اور مسلمین کی امامت)زیادہ مستحق ہیں ان جھوٹے دعوایداروں سے (٥) ۔
یہ سب باتیں ان باتوں کے علاوہ ہیں جو امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کی زندگی میں(جبکہ وہ ولایت عہدی کے مسئلہ کو یزید کے لئے بیان کررہا تھا) بیان کی تھیں اور اپنے آپ کو امر خلافت کے لئے سب سے زیادہ مستحق بتا یاتھا (ان باتوں کو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں) ۔
ج)کوفیوں کی دعوت پر لبیک کہنا
امام حسین علیہ السلام کی کوششوںمیں سے ایک کوشش اسلامی حکومت کی تشکیل اور یزید کی نامشروع حکومت کے خلاف کوفیوں کی رہبری کی دعوت کو قبول کرنا تھا ۔
اسی لئے امام حسین نے کوفہ میں اپنے سفیراور نمائندہ جناب مسلم بن عقیل کو بھیجا تاکہ ان کی دعوت کی اہمیت کو سمجھا جائے اور ان سے بیعت لی جائے ، اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام) اسلامی اور الہی حکومت کو تشکیل دینے کا مصمم ارادہ کرچکے تھے ۔
کوفہ حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ اور ان کے چاہنے والوںکا مرکز تھااسی وجہ سے امام حسین چاہتے تھے کہ اس شہر کو اسلامی قیام کا مرکز قرار دیںاور اس جگہ سے اپنے انقلاب کی رہبری کریں اور پھر اس انقلاب کو دوسرے شہروں میں پھیلائیں (6) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.