مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس موضوع کو سب سے پہلی مرتبہ عیسائیوں نے بیان کیا ہے ،انہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مقام و عظمت کو کم ظاہر کرنے کے لئے دعوی کیا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس قرآن کریم کے علاوہ کوئی دوسرا معجزہ نہیں تھا اور صرف قرآن کریم کے ذریعہ دعوی کرتے تھے اور جب بھی ان سے معجزہ مانگا جاتا تھا تو وہ اپنی کتاب کی طرف اشارہ کرتے تھے ۔
مرحوم فخر الاسلام کہتے ہیں : «مسیوژرژ دوروی « نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت کے سلسلہ میں ایک کتاب لکھی ہے اور اس کے صفحہ نمبر ۱۵۷ پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تصویر بنائی ہے جس میں آنحضرت (ص) اپنے ہاتھ میں ایک کتاب لئے ہوئے ہیں اور اس تصویر کے نیچے لکھا ہے :
جب ان بزرگوار سے معجزہ طلب کیا جاتا تھا تو اس کے جواب میں کہتے تھے : معجزہ کا اختیار میرے ہاتھ میں نہیں ہے اور مجھے یہ نعمت نہیں دی گئی ہے (۱) ۔
اس پاپ کا پہلا جملہ بالکل حقیقت ہے اور وہ یہ ہے کہ معجزہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہاتھ میں نہیں ہے اور جب تک اذن خدا نہیں ہوتا اس وقت تک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوئی کام نہیں کرتے اور قرآن کریم کی آیت اس بات پر صریح طور سے دلالت کرتی ہے : « وَ ما کانَ لِرَسُولٍ اٴَنْ یَاٴْتِیَ بِآیَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّہ....«(سورہ رعد ، آیت ۳۸) ۔
کسی رسول کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے۔
لیکن اس کی دوسری بات (مجھے یہ نعمت نہیں دی گئی ہے ) جھوٹی اور تہمت ہے اور آنحضرت (ص) نے کبھی بھی یہ بات نہیں کی ہے ،بلکہ آپ اس نعمت سے برخوردار تھے اور خداوند عالم کے اذن سے معجزہ دکھاتے تھے ۔
ہم اس دعوی کی عقلی تحلیل میں کہتے ہیں :
چاہے پیغمبر اسلام کو خداوند عالم کا منتخب رسول سمجھ لیں،یاان کو ایک اجتماعی مفکر ، ہر حال میں انہوں نے اپنے آپ کو قرآن مجید میں موسی اور عیسی جیسے پیغمبروں کی مانند پیش کیا ہے ، بلکہ اپنے آپ کو ان سے بلند و بالا جانا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت خاتم انبیاء اور ا ن کی کتاب قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ہے ۔
یہ اللہ کے منتخب ، یا دوسروں کی تعبیر کے مطابق «اجتماعی مصلح« جب گذشتہ انبیاء کی سیرت کو بیان کرتے ہیں تو ان کے لئے بہت سے واقعات اور معجزات کو ثابت کرتے ہیں ۔ مثلا جس وقت وہ موسی کی دعوت کے بارے میں بات کرتے ہیں تواس طرح کہتے ہیں :
«وَ لَقَدْ آتَیْنا مُوسی تِسْعَ آیاتٍ بَیِّنات« (سورہ اسراء ، آیت ۱۰۱) ۔ اور ہم نے موسٰی کو نوکِھلی ہوئی نشانیاں دی تھیں۔
پھر دوبارہ ان کے متعلق اس طرح کہا ہے : «وَ اٴَدْخِلْ یَدَکَ فی جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضاء َ مِنْ غَیْرِ سُوء ٍ فی تِسْعِ آیاتٍ إِلی فِرْعَوْنَ وَ قَوْمِہِ ....« (سورہ نمل ، آیت ۱۲) ۔
اور اپنے ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر نکالو تو دیکھو گے کہ بغیر کسی بیماری کے سفید چمکدار نکلتا ہے یہ ان نو معجزات میں سے ایک ہے جنہیں فرعون اور اس کی قوم کے لئے دیا گیا ہے۔
جس وقت حضرت عیسی کی دعوت کے طریقہ کو بیان کرتے ہیں تو ان کا اس طرح تعارف کراتے ہیں :
«وَ رَسُولاً إِلی بَنی إِسْرائیلَ اٴَنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ اٴَنِّی اٴَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّینِ کَہَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاٴَنْفُخُ فیہِ فَیَکُونُ طَیْراً بِإِذْنِ اللَّہِ وَ اٴُبْرِءُ الْاٴَکْمَہَ وَ الْاٴَبْرَصَ وَ اٴُحْیِ الْمَوْتی بِإِذْنِ اللَّہِ وَ اٴُنَبِّئُکُمْ بِما تَاٴْکُلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ فی بُیُوتِکُمْ إِنَّ فی ذلِکَ لَآیَةً لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ« (سورہ آل عمران ، آیت ۴۹) ۔
اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا اور وہ ان سے کہے گا کہ میں تمھارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤں گا اور اس میں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکہِ خدا سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور َمبروص کا علاج کروں گا اور حکہِ خدا سے مفِدوں کو زندہ کروں گا اور تمہیں اس بات کی خبردوں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو- ان سب میں تمہارے لئے نشانیاں ہیں اگر تم صاحبانِ ایمان ہو ۔
آنحضرت (ص) صرف حضرت موسی اور حضرت عیسی جیسے انبیاء کی دعوت کو معجزہ کے ساتھ بیان نہیں کرتے بلکہ دوسرے انبیاء کے لئے بھی معجزوں کوثابت کرتے ہیں ، قرآن کریم میں آسمانی انبیاء کی دعوت کے بارے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان کی طرف مراجعہ کرنے سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے ۔
کیا یہ بات صحیح ہے کہ جوشخص خود نبوت اور رسالت کا دعوی کرتا ہو اور دوسرے تمام انبیاء کی دعوت کو معجزہ کے ساتھ بیان کرتا ہو اور ان کے معجزوں کی خصوصیات کو بیان کرتا ہو اور جب ان سے معجزہ طلب کیا جائے تو خاموش ہوجائیں ؟ معجزہ طلب کرنے کے سامنے یہ تحلیل آنحضرت (ص) کے مقام کو اچھی طرح واضح کردیتی ہے کیونکہ آنحضرت یا تو آسمانی پیغمبر ہیں اور اگر ہیں تو اس صورت میں جب بھی ان سے معجزہ طلب کیا جائے گا وہ لوگوں کی ہدایت کے لئے گذشتہ انبیاء کی طرح معجزہ پیش کریں گے ۔یا پھر وہ ایک اجتماعی مفکر ہیں جو اپنے ذاتی افکار کی وجہ سے بشریت کو نجات دلانا چاہتے ہیں اگر چہ انہوں نے اپنی دعوت کو نبوت کا رنگ اور اپنے منتخب ہونے کو خداوندعالم کی طرف سے کہا ہو لیکن ایسا شخص دوسروں کو ایسا موقع نہیں دے سکتا کہ دوسرے انبیاء کے معجزوں کو ثابت کرے لیکن خود اس کے پاس معجزات نہ ہوں ، یا خاموشی اختیار کرلے ۔
اسی وجہ سے نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ معجزہ کی مخالفت کرتے تھے اور گذشتہ انبیاء کے معجزوں کا انکار کرتے تھے اور جن آیات میں ان کے معجزوں کو بیان کیا گیا ہے ان کی تاویل کرنے کی کوشش کرتے تھے اور یہ تمام کوششیں اسی وجہ سے تھیں کہ اپنے آپ کو اس مشکل سے باہر نکالیں، وہ سمجھتے تھے کہ اگر لوگوں نے ان سے معجزہ مانگ لیا تو ان کا عجز اور کمزوری آشکار ہوجائے گی ۔
لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس گروہ کے برخلاف گذشتہ انبیاء کے معجزات کو ثابت کرتے ہیں ، یہاں تک کہ صریح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ انبیاء کی دعوت لوگوں کی طرف سے معجزہ کی درخواست سے جدا نہیں تھی ،اس تعریف کے ساتھ یہ شخص خود کس طرح معجزہ لانے سے انکار کرسکتا ہے ؟
خلاصہ : مذکورہ مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکا کہ آپ کے پاس معجزات نہیں تھے (2) ۔
مرحوم فخر الاسلام کہتے ہیں : «مسیوژرژ دوروی « نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت کے سلسلہ میں ایک کتاب لکھی ہے اور اس کے صفحہ نمبر ۱۵۷ پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تصویر بنائی ہے جس میں آنحضرت (ص) اپنے ہاتھ میں ایک کتاب لئے ہوئے ہیں اور اس تصویر کے نیچے لکھا ہے :
جب ان بزرگوار سے معجزہ طلب کیا جاتا تھا تو اس کے جواب میں کہتے تھے : معجزہ کا اختیار میرے ہاتھ میں نہیں ہے اور مجھے یہ نعمت نہیں دی گئی ہے (۱) ۔
اس پاپ کا پہلا جملہ بالکل حقیقت ہے اور وہ یہ ہے کہ معجزہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہاتھ میں نہیں ہے اور جب تک اذن خدا نہیں ہوتا اس وقت تک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوئی کام نہیں کرتے اور قرآن کریم کی آیت اس بات پر صریح طور سے دلالت کرتی ہے : « وَ ما کانَ لِرَسُولٍ اٴَنْ یَاٴْتِیَ بِآیَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّہ....«(سورہ رعد ، آیت ۳۸) ۔
کسی رسول کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے۔
لیکن اس کی دوسری بات (مجھے یہ نعمت نہیں دی گئی ہے ) جھوٹی اور تہمت ہے اور آنحضرت (ص) نے کبھی بھی یہ بات نہیں کی ہے ،بلکہ آپ اس نعمت سے برخوردار تھے اور خداوند عالم کے اذن سے معجزہ دکھاتے تھے ۔
ہم اس دعوی کی عقلی تحلیل میں کہتے ہیں :
چاہے پیغمبر اسلام کو خداوند عالم کا منتخب رسول سمجھ لیں،یاان کو ایک اجتماعی مفکر ، ہر حال میں انہوں نے اپنے آپ کو قرآن مجید میں موسی اور عیسی جیسے پیغمبروں کی مانند پیش کیا ہے ، بلکہ اپنے آپ کو ان سے بلند و بالا جانا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت خاتم انبیاء اور ا ن کی کتاب قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ہے ۔
یہ اللہ کے منتخب ، یا دوسروں کی تعبیر کے مطابق «اجتماعی مصلح« جب گذشتہ انبیاء کی سیرت کو بیان کرتے ہیں تو ان کے لئے بہت سے واقعات اور معجزات کو ثابت کرتے ہیں ۔ مثلا جس وقت وہ موسی کی دعوت کے بارے میں بات کرتے ہیں تواس طرح کہتے ہیں :
«وَ لَقَدْ آتَیْنا مُوسی تِسْعَ آیاتٍ بَیِّنات« (سورہ اسراء ، آیت ۱۰۱) ۔ اور ہم نے موسٰی کو نوکِھلی ہوئی نشانیاں دی تھیں۔
پھر دوبارہ ان کے متعلق اس طرح کہا ہے : «وَ اٴَدْخِلْ یَدَکَ فی جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضاء َ مِنْ غَیْرِ سُوء ٍ فی تِسْعِ آیاتٍ إِلی فِرْعَوْنَ وَ قَوْمِہِ ....« (سورہ نمل ، آیت ۱۲) ۔
اور اپنے ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر نکالو تو دیکھو گے کہ بغیر کسی بیماری کے سفید چمکدار نکلتا ہے یہ ان نو معجزات میں سے ایک ہے جنہیں فرعون اور اس کی قوم کے لئے دیا گیا ہے۔
جس وقت حضرت عیسی کی دعوت کے طریقہ کو بیان کرتے ہیں تو ان کا اس طرح تعارف کراتے ہیں :
«وَ رَسُولاً إِلی بَنی إِسْرائیلَ اٴَنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ اٴَنِّی اٴَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّینِ کَہَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاٴَنْفُخُ فیہِ فَیَکُونُ طَیْراً بِإِذْنِ اللَّہِ وَ اٴُبْرِءُ الْاٴَکْمَہَ وَ الْاٴَبْرَصَ وَ اٴُحْیِ الْمَوْتی بِإِذْنِ اللَّہِ وَ اٴُنَبِّئُکُمْ بِما تَاٴْکُلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ فی بُیُوتِکُمْ إِنَّ فی ذلِکَ لَآیَةً لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ« (سورہ آل عمران ، آیت ۴۹) ۔
اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا اور وہ ان سے کہے گا کہ میں تمھارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤں گا اور اس میں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکہِ خدا سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور َمبروص کا علاج کروں گا اور حکہِ خدا سے مفِدوں کو زندہ کروں گا اور تمہیں اس بات کی خبردوں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو- ان سب میں تمہارے لئے نشانیاں ہیں اگر تم صاحبانِ ایمان ہو ۔
آنحضرت (ص) صرف حضرت موسی اور حضرت عیسی جیسے انبیاء کی دعوت کو معجزہ کے ساتھ بیان نہیں کرتے بلکہ دوسرے انبیاء کے لئے بھی معجزوں کوثابت کرتے ہیں ، قرآن کریم میں آسمانی انبیاء کی دعوت کے بارے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان کی طرف مراجعہ کرنے سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے ۔
کیا یہ بات صحیح ہے کہ جوشخص خود نبوت اور رسالت کا دعوی کرتا ہو اور دوسرے تمام انبیاء کی دعوت کو معجزہ کے ساتھ بیان کرتا ہو اور ان کے معجزوں کی خصوصیات کو بیان کرتا ہو اور جب ان سے معجزہ طلب کیا جائے تو خاموش ہوجائیں ؟ معجزہ طلب کرنے کے سامنے یہ تحلیل آنحضرت (ص) کے مقام کو اچھی طرح واضح کردیتی ہے کیونکہ آنحضرت یا تو آسمانی پیغمبر ہیں اور اگر ہیں تو اس صورت میں جب بھی ان سے معجزہ طلب کیا جائے گا وہ لوگوں کی ہدایت کے لئے گذشتہ انبیاء کی طرح معجزہ پیش کریں گے ۔یا پھر وہ ایک اجتماعی مفکر ہیں جو اپنے ذاتی افکار کی وجہ سے بشریت کو نجات دلانا چاہتے ہیں اگر چہ انہوں نے اپنی دعوت کو نبوت کا رنگ اور اپنے منتخب ہونے کو خداوندعالم کی طرف سے کہا ہو لیکن ایسا شخص دوسروں کو ایسا موقع نہیں دے سکتا کہ دوسرے انبیاء کے معجزوں کو ثابت کرے لیکن خود اس کے پاس معجزات نہ ہوں ، یا خاموشی اختیار کرلے ۔
اسی وجہ سے نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ معجزہ کی مخالفت کرتے تھے اور گذشتہ انبیاء کے معجزوں کا انکار کرتے تھے اور جن آیات میں ان کے معجزوں کو بیان کیا گیا ہے ان کی تاویل کرنے کی کوشش کرتے تھے اور یہ تمام کوششیں اسی وجہ سے تھیں کہ اپنے آپ کو اس مشکل سے باہر نکالیں، وہ سمجھتے تھے کہ اگر لوگوں نے ان سے معجزہ مانگ لیا تو ان کا عجز اور کمزوری آشکار ہوجائے گی ۔
لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس گروہ کے برخلاف گذشتہ انبیاء کے معجزات کو ثابت کرتے ہیں ، یہاں تک کہ صریح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ انبیاء کی دعوت لوگوں کی طرف سے معجزہ کی درخواست سے جدا نہیں تھی ،اس تعریف کے ساتھ یہ شخص خود کس طرح معجزہ لانے سے انکار کرسکتا ہے ؟
خلاصہ : مذکورہ مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکا کہ آپ کے پاس معجزات نہیں تھے (2) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.