مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوره «توبه» کی آیت ۳۳ میں پڑھتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: « وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر کامیابی اور غلبہ دے اگرچہ مشرکین اسے پسند نہیں کرتے
هُوَ الَّذی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَ دینِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَى الدِّینِ کُلِّهِ وَ لَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ)
زیرِ بحث آیات میں سے تیسری میں قرآن نے یہودیوں اور عیسائیوں یا تمام مخالفینِ اسلام یہاں تک کہ مشرکین کی بھی جان توڑ اور بے نتیجہ کوششوں کو ایک جاذب نظر تشبیہ کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: وہ چاہتے ہیں کہ اپنی پھونکوں سے نورِ خدا کو خاموش کردیں لیکن خدا کا ارادہ ہے کہ اس نورِ الٰہی کو اس طرح وسیع اور کامل کردے یہاں تک کہ وہ تمام دنیا پر چھاجائے اور تمام لوگ اس کے سائے سے مستفید ہوں اگرچہ کافروں کو یہ ناپسند ہے (یُرِیدُونَ اٴَنْ یُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِاٴَفْوَاہِھِمْ وَیَاٴْبَی اللهُ إِلاَّ اٴَنْ یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ) ۔
۱۔ نور سے تشبیہ:
اس آیت میں دینِ خدا، قرآن اور تعلیمات اسلامی کو نور اور روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ نور زندگی، حرکت، نشو ونما اور روئے زمین پر آبادیکا سرچشمہ اور ہر قسم کے حُسن وزیبائی کا منشاء ہے ۔
اسلام بھی تحرک آفرین دین ہے اور انسانی معاشرے کوو تکامل و ارتقا کی راہ میں آگے لے جاتا ہے اور ہر خیر ووبرکت کا منبع ہے، دشمنوں کی کاوشوں کو بھی پھونکوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ انسان نورِ آفتاب کی طرح روشنی کو پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کرے اور ان کی کوششوں کے حقیر اور ناچیز ہونے کی تصویر کشی کے لئے اس سے عمدہ اور رساتر تعبیر نظر نہیں آتی، درحقیقت حضرتِ حق کے لئے بے پایاں ارادے اور لامتناہی قدرت کے مقابلے میں عاجز وناتواں مخلوق کی کوششیں اس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں ۔
۲۔ نور خدا کو بجھانے کی مساعی کا دو مرتبہ ذکر:
نورِ خدا کو بجھانے کی کوششوں کا ذکر قرآن میں دو مواقع پر آیا ہے ۔ ایک زیرِ بحث آیت میں اور دوسرا سورہٴ صف کی آیہ۱۸ میں، دونوں مقامات پر یہ بات دشمنانِ اسلام کی مساعی پر تنقید کے طور پر ہے لیکن ان دونوں آیات میں تھوڑا سا فرق نظر آتا ہے، زیر بحث آیت میں ہے: ”یریدون اٴن یطفئوا“ جبکہ سورہٴ صف میں ہے: ”یریدون لیطفئوا“
تعبیر کا یہ فرق یقیناً کسی نکتے کی طرف اشارہ ہے، مفردات میں راغب ان دونوں تعبیرات کے فرق کی وضاحت کے سلسلے میں کہتا ہے کہ پہلی آیت میں بغیر مقدمہ ووسیلہ کے بجھانے کی طرف اشارہ ہے لیکن دوسری آیت میں مقدمات واسباب کے ذریعے بجھانے کی طرف اشارہ ہے، یعنی وہ اسباب کے بغیر یا پورے وسائل کے ساتھ نورِ حق کو بجھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
۳۔ ”یاٴبیٰ“ کا مفہوم:
”یاٴبیٰ“ مادہٴ ”اباء “ سے ہے اس کا مطلب ہے سختی سے کسی چیز سے روکنا اور منع کرنا، یہ تعبیر دینِ اسلام کی تکمیل اور پیش رفت کے لئے پروردگار کے حتمی ارادے اور مشیت کا ثبوت دیتی ہے اور اس دین کے مستقبل کے بارے میں تمام مسلمانوں کو ایک ولولہ اور امید دلاتی ہے، اگر مسلمان واقعی اور حقیقی مسلمان ہوں ۔
اسلام کی عالمگیر حکومت
آخرکار زیرِ بحث آیت میں مسلمانوں کو اسلام کے عالمگیر ہونے کی بشارت دی گئی ہے، گذشتہ آیت کی بحث جس کا مقصد یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام کی جان توڑ کوششیں بارآور نہیں ہوں گی، اس کی تکمیل کرتے ہوئے صراحت سے فرمایا گیا ہے: وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر کامیابی اور غلبہ دے اگرچہ مشرکین اسے پسند نہیں کرتے (ھُوَ الَّذِی اٴَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْھُدیٰ وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ) ۔
ہدایت سے مراد روشن دلائل اور واضح براہین ہیں جو دین اسلام میں موجود ہیں اور دینِ حق سے مراد یہی دین ہے جس کے لئے اصول اور فروع حق ہیں، مختصر یہ ہے کہ اس کی تاریخ، اس کے مدارک اور اس کا حاصل سب حق ہے اور بلاشبہ وہ دین جس کے مضامین بھی حق ہیں اور جس کے دلائل، مدارک اور تاریخ سب روشن ہیں اسے آخرکار تمام ادیان پر غالب اور کامیاب ہونا چاہیے ۔
رفتارِ زمانہ، علم کی پیشرفت اور روابط کی آسانی کے ساتھ ساتھ زہریلے پراپیگنڈا کا پردہ ہٹتا جائے گا اور حقائق کا چہرہ آشکار ہوتا چلا جائے گا اور مخالفین حق اس کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں وہ سب ختم ہوجائیں گی، یوں دینِ حق تمام جگہوں پر محیط ہوجائے گاچاہے حق کے دشمن نہ چاہیں اور چاہے اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہ آئیں کیونکہ ان کی حرکتیں راہِ تاریخ کے خلاف ہیں اور سننِ آفرینش کی ضد ہیں ۔
۱۔ ہدایت اور دینِ حق سے کیا مراد ہے؟
یہ مندرجہ بالا آیت میں قرآن کہتا ہے: ”اٴَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْھُدیٰ وَدِینِ الْحَقِّ “ یہ گویا تمام ادیانِ عالم پر اسلام کی کامیابی کی دلیل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب پیغمبر اسلام کی دعوت کا مضمون اور متن مبنی بر ہدایت ہے اور عقل ہر مقام پر اس کی گواہی دے گی، نیز جب اصول وفروع حق کے موافق اور حق کے خواہاں ہیں تو ایسا دین فطری طور پر تمام ادیان پر کامیابی حاصل کرے گا ۔
ہندوستان کے ایک دانشور کے بارے میں مرقوم ہے کہ وہ یک مدت تک مختلف عالمی ادیان کا مطالعہ کرتا رہا اور ان کے بارے میں اس نے تحقیق کی اور آخرکار بہت زیادہ مطالعہ کرنے کے اس نے اسلام قبول کرلیا اور انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا: ”میں مسلمان کیوں ہوا“ اس میں اس نے تمام ادیان کے مقابلے میںاسلام کی خوبیاں واضح کی ہیں، اہم ترین امور جنھوں نے اس کی توجہ جذب کی ان میں سے ایک کے بارے میں وہ کہتا ہے:
اسلام وہ واحد دین ہے جس کی تاریخ ثابت وبرقرار اور محفوظ ہے ۔
وہ تعجب کرتا ہے کہ یورپ نے ایک ایسا دین کیونکر اپنا رکھا ہے کہ جس میں اس کے لانے والے کو ایک انسان کے مقام سے بالاتر جاکر اسے اپنا خدا قرار دے لیا ہے جبکہ اس کی کوئی مستند اور قابلِ قبول تاریخ نہیں ہے ۔
۲۔ منطقی غلبہ یا طاقت کا غلبہ:
اس سلسلہ میں کہ اسلام کس طرح تمام ادیان پر غلبہ حاصل کرے گا اور کامیاب ہوگا اور یہ کامیابی کس صورت میں ہوگی مفسّرین میں اختلاف ہے ۔
بعض اسے صرف منطقی واستدلالی کامیابی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا ہوچکا ہے کیونکہ منطق واستدلال کی نظر سے موجودہ ادیان کا اسلام سے کوئی موازنہ اور مقابلہ نہیں ہے ۔
لیکن لفظ ’اظہار“ جس کا مادہ ”لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّینِ“ میںبھی استعمال ہوا ہے، اگر اس کا قرآن کے دیگر مواقع پر مطالعہ کیا جائے اور جہاں جہاں یہ مادہ استعمال ہواہے اس کی تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ مادہ زیادہ ترجسمانی غلبہ اور ظاہری قدرت کے لئے آتا ہے، جیساکہ اصحابِ کہف کے واقعہ میں ہے:
<إِنَّھُمْ إِنْ یَظْھَرُوا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوکُمْ>
اگر وہ (دقیانوس اور اس کا لشکر) تم پر غلبہ حاصل کرلیں تو تمھیں سنگسار کریں گے ۔(کہف/۲۰)۔۱
نیز مشرکین کے بارے میں ہے:
<کَیْفَ وَإِنْ یَظْھَرُوا عَلَیْکُمْ لَایَرْقُبُوا فِیکُمْ إِلًّا وَلَاذِمَّةً>
جب وہ تم پر غالب آجاتے ہیں تو رشتہ داری، قرابت اور عہدہ پیمان کا لحاظ نہیں کرتے ۔(توبہ/۸)۔۲
بدیہی امر ہے کہ ایسے مواقع پر غلبہ منطقی نہیں ہوتا بلکہ عملی اور عینی ہوتا ہے ۔
بہرحال زیادہ صحیح یہ ہے کہ مذکورہ غلبہ اورکامیابی کو ہر قسم کا غلبہ سمجھا جائے کیونکہ یہ معنی مفہوم قرآن سے بھی زیادہ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ وہاں مطلق طور پر غلبہ کا ذکر ہے یعنی ایک دن ایسا آئے گا جب اسلام منطق واستدلال کے لحاظ سے بھی اور ظاہری نفوذ اور حکومت کے حوالے سے بھی تمام ادیان عالم پر کامیابی حاصل کرے گا اور سب اس کے تحت شعاع اور زیرِ نگین ہوںگے ۔۳
زیرِ بحث آیات میں سے تیسری میں قرآن نے یہودیوں اور عیسائیوں یا تمام مخالفینِ اسلام یہاں تک کہ مشرکین کی بھی جان توڑ اور بے نتیجہ کوششوں کو ایک جاذب نظر تشبیہ کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: وہ چاہتے ہیں کہ اپنی پھونکوں سے نورِ خدا کو خاموش کردیں لیکن خدا کا ارادہ ہے کہ اس نورِ الٰہی کو اس طرح وسیع اور کامل کردے یہاں تک کہ وہ تمام دنیا پر چھاجائے اور تمام لوگ اس کے سائے سے مستفید ہوں اگرچہ کافروں کو یہ ناپسند ہے (یُرِیدُونَ اٴَنْ یُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِاٴَفْوَاہِھِمْ وَیَاٴْبَی اللهُ إِلاَّ اٴَنْ یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ) ۔
۱۔ نور سے تشبیہ:
اس آیت میں دینِ خدا، قرآن اور تعلیمات اسلامی کو نور اور روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ نور زندگی، حرکت، نشو ونما اور روئے زمین پر آبادیکا سرچشمہ اور ہر قسم کے حُسن وزیبائی کا منشاء ہے ۔
اسلام بھی تحرک آفرین دین ہے اور انسانی معاشرے کوو تکامل و ارتقا کی راہ میں آگے لے جاتا ہے اور ہر خیر ووبرکت کا منبع ہے، دشمنوں کی کاوشوں کو بھی پھونکوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ انسان نورِ آفتاب کی طرح روشنی کو پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کرے اور ان کی کوششوں کے حقیر اور ناچیز ہونے کی تصویر کشی کے لئے اس سے عمدہ اور رساتر تعبیر نظر نہیں آتی، درحقیقت حضرتِ حق کے لئے بے پایاں ارادے اور لامتناہی قدرت کے مقابلے میں عاجز وناتواں مخلوق کی کوششیں اس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں ۔
۲۔ نور خدا کو بجھانے کی مساعی کا دو مرتبہ ذکر:
نورِ خدا کو بجھانے کی کوششوں کا ذکر قرآن میں دو مواقع پر آیا ہے ۔ ایک زیرِ بحث آیت میں اور دوسرا سورہٴ صف کی آیہ۱۸ میں، دونوں مقامات پر یہ بات دشمنانِ اسلام کی مساعی پر تنقید کے طور پر ہے لیکن ان دونوں آیات میں تھوڑا سا فرق نظر آتا ہے، زیر بحث آیت میں ہے: ”یریدون اٴن یطفئوا“ جبکہ سورہٴ صف میں ہے: ”یریدون لیطفئوا“
تعبیر کا یہ فرق یقیناً کسی نکتے کی طرف اشارہ ہے، مفردات میں راغب ان دونوں تعبیرات کے فرق کی وضاحت کے سلسلے میں کہتا ہے کہ پہلی آیت میں بغیر مقدمہ ووسیلہ کے بجھانے کی طرف اشارہ ہے لیکن دوسری آیت میں مقدمات واسباب کے ذریعے بجھانے کی طرف اشارہ ہے، یعنی وہ اسباب کے بغیر یا پورے وسائل کے ساتھ نورِ حق کو بجھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
۳۔ ”یاٴبیٰ“ کا مفہوم:
”یاٴبیٰ“ مادہٴ ”اباء “ سے ہے اس کا مطلب ہے سختی سے کسی چیز سے روکنا اور منع کرنا، یہ تعبیر دینِ اسلام کی تکمیل اور پیش رفت کے لئے پروردگار کے حتمی ارادے اور مشیت کا ثبوت دیتی ہے اور اس دین کے مستقبل کے بارے میں تمام مسلمانوں کو ایک ولولہ اور امید دلاتی ہے، اگر مسلمان واقعی اور حقیقی مسلمان ہوں ۔
اسلام کی عالمگیر حکومت
آخرکار زیرِ بحث آیت میں مسلمانوں کو اسلام کے عالمگیر ہونے کی بشارت دی گئی ہے، گذشتہ آیت کی بحث جس کا مقصد یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام کی جان توڑ کوششیں بارآور نہیں ہوں گی، اس کی تکمیل کرتے ہوئے صراحت سے فرمایا گیا ہے: وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر کامیابی اور غلبہ دے اگرچہ مشرکین اسے پسند نہیں کرتے (ھُوَ الَّذِی اٴَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْھُدیٰ وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ) ۔
ہدایت سے مراد روشن دلائل اور واضح براہین ہیں جو دین اسلام میں موجود ہیں اور دینِ حق سے مراد یہی دین ہے جس کے لئے اصول اور فروع حق ہیں، مختصر یہ ہے کہ اس کی تاریخ، اس کے مدارک اور اس کا حاصل سب حق ہے اور بلاشبہ وہ دین جس کے مضامین بھی حق ہیں اور جس کے دلائل، مدارک اور تاریخ سب روشن ہیں اسے آخرکار تمام ادیان پر غالب اور کامیاب ہونا چاہیے ۔
رفتارِ زمانہ، علم کی پیشرفت اور روابط کی آسانی کے ساتھ ساتھ زہریلے پراپیگنڈا کا پردہ ہٹتا جائے گا اور حقائق کا چہرہ آشکار ہوتا چلا جائے گا اور مخالفین حق اس کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں وہ سب ختم ہوجائیں گی، یوں دینِ حق تمام جگہوں پر محیط ہوجائے گاچاہے حق کے دشمن نہ چاہیں اور چاہے اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہ آئیں کیونکہ ان کی حرکتیں راہِ تاریخ کے خلاف ہیں اور سننِ آفرینش کی ضد ہیں ۔
۱۔ ہدایت اور دینِ حق سے کیا مراد ہے؟
یہ مندرجہ بالا آیت میں قرآن کہتا ہے: ”اٴَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْھُدیٰ وَدِینِ الْحَقِّ “ یہ گویا تمام ادیانِ عالم پر اسلام کی کامیابی کی دلیل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب پیغمبر اسلام کی دعوت کا مضمون اور متن مبنی بر ہدایت ہے اور عقل ہر مقام پر اس کی گواہی دے گی، نیز جب اصول وفروع حق کے موافق اور حق کے خواہاں ہیں تو ایسا دین فطری طور پر تمام ادیان پر کامیابی حاصل کرے گا ۔
ہندوستان کے ایک دانشور کے بارے میں مرقوم ہے کہ وہ یک مدت تک مختلف عالمی ادیان کا مطالعہ کرتا رہا اور ان کے بارے میں اس نے تحقیق کی اور آخرکار بہت زیادہ مطالعہ کرنے کے اس نے اسلام قبول کرلیا اور انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا: ”میں مسلمان کیوں ہوا“ اس میں اس نے تمام ادیان کے مقابلے میںاسلام کی خوبیاں واضح کی ہیں، اہم ترین امور جنھوں نے اس کی توجہ جذب کی ان میں سے ایک کے بارے میں وہ کہتا ہے:
اسلام وہ واحد دین ہے جس کی تاریخ ثابت وبرقرار اور محفوظ ہے ۔
وہ تعجب کرتا ہے کہ یورپ نے ایک ایسا دین کیونکر اپنا رکھا ہے کہ جس میں اس کے لانے والے کو ایک انسان کے مقام سے بالاتر جاکر اسے اپنا خدا قرار دے لیا ہے جبکہ اس کی کوئی مستند اور قابلِ قبول تاریخ نہیں ہے ۔
۲۔ منطقی غلبہ یا طاقت کا غلبہ:
اس سلسلہ میں کہ اسلام کس طرح تمام ادیان پر غلبہ حاصل کرے گا اور کامیاب ہوگا اور یہ کامیابی کس صورت میں ہوگی مفسّرین میں اختلاف ہے ۔
بعض اسے صرف منطقی واستدلالی کامیابی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا ہوچکا ہے کیونکہ منطق واستدلال کی نظر سے موجودہ ادیان کا اسلام سے کوئی موازنہ اور مقابلہ نہیں ہے ۔
لیکن لفظ ’اظہار“ جس کا مادہ ”لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّینِ“ میںبھی استعمال ہوا ہے، اگر اس کا قرآن کے دیگر مواقع پر مطالعہ کیا جائے اور جہاں جہاں یہ مادہ استعمال ہواہے اس کی تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ مادہ زیادہ ترجسمانی غلبہ اور ظاہری قدرت کے لئے آتا ہے، جیساکہ اصحابِ کہف کے واقعہ میں ہے:
<إِنَّھُمْ إِنْ یَظْھَرُوا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوکُمْ>
اگر وہ (دقیانوس اور اس کا لشکر) تم پر غلبہ حاصل کرلیں تو تمھیں سنگسار کریں گے ۔(کہف/۲۰)۔۱
نیز مشرکین کے بارے میں ہے:
<کَیْفَ وَإِنْ یَظْھَرُوا عَلَیْکُمْ لَایَرْقُبُوا فِیکُمْ إِلًّا وَلَاذِمَّةً>
جب وہ تم پر غالب آجاتے ہیں تو رشتہ داری، قرابت اور عہدہ پیمان کا لحاظ نہیں کرتے ۔(توبہ/۸)۔۲
بدیہی امر ہے کہ ایسے مواقع پر غلبہ منطقی نہیں ہوتا بلکہ عملی اور عینی ہوتا ہے ۔
بہرحال زیادہ صحیح یہ ہے کہ مذکورہ غلبہ اورکامیابی کو ہر قسم کا غلبہ سمجھا جائے کیونکہ یہ معنی مفہوم قرآن سے بھی زیادہ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ وہاں مطلق طور پر غلبہ کا ذکر ہے یعنی ایک دن ایسا آئے گا جب اسلام منطق واستدلال کے لحاظ سے بھی اور ظاہری نفوذ اور حکومت کے حوالے سے بھی تمام ادیان عالم پر کامیابی حاصل کرے گا اور سب اس کے تحت شعاع اور زیرِ نگین ہوںگے ۔۳
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.