مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوره «آل عمران»کی آیت ۴۵ میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ فرماتا ہے : وہ وقت ( یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا : اے مریم (علیها السلام) ! خدا پنی طرف سے تجھے ایک کلمہ ( اور باعظمت شخصیت ) کی بشارت دیتا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہے ، وہ دنیا و آخرت میں مقام و عظمت کا مالک ہو اور وہ مقربین میں سے ہے ۔(ذْ قَالَتْ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ إِنَّ اللهَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَم")
اس آیت میں حضرت مسیح (علیه السلام) کی ولادت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ یہ واقعہ فرشتوں کی طرف سے جناب مریم (علیها السلام) کو بشارت دینے سے شروع ہوتا ہے ۔ فرشتے خدا کی طرف سے جناب مریم کو خوشخبری دیتے ہیں کہ خدا انہیں ایک بچہ دے گاجس کانام مسیح عیسی بن مریم (علیها السلام) ہوگا ۔ وہ دنیا و آخرت میں مقام و عظمت کامالک ہوگا ۔ اور بار گاہ الہٰی کے مقربین میں سے ہوگا " إِذْ قَالَتْ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ إِنَّ اللهَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَم"
چند اہم نکات
۱۔ عیسیٰ (علیه السلام) کو کلمہ کیوں کہا گیا ؟ : اس آیت میں اور دو مزید آیات میں حضرت مسیح (علیه السلام) کو " کلمہ" کے عنوان سے یاد کیاگیا ہے ۔ یہ تعبیر عہد جدید کی کتب میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔
اس بارے میں مفسرین میںاختلاف ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کو " کلمہ " کیوں کہا گیا ہے لیکن زیادہ تر یہی نظر آتا ہے کہ اس کا سبب ان کی غیر معمولی پیدائش ہے جو اس فرمان الہٰی کی مصداق ہے :۔
"انّما ٓ امرہٓ اذا رادا شیئاً ان یقول لہ کن فیکون "
اس کا امر تو بس یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا رادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہوجا بس وہ ہوجاتی ہے ۔ ( یس ٓ۔ ۸۲) یا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ولادت سے پہلے خدا تعالیٰ نے ان کی والدہ کو ایک کلام کے ذریعے بشارت دی تھی ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس تعبیر کی وجہ یہ ہوکہ لفظ " کلمہ " قرآن کی اصطلاح میں مخلوق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، مثلاً:
" قل لوکان البحر مداداً لکمات ربّی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربّی ولو جئنا بمثلہ مددا ۔"
کہہ دیجئے میرے پروردگار کے کلمات لکھنے کے لئے اگر دریا سیاہی بن جائیں تو وہ ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں اگر چہ انہی جتنے اور دریابھی ان میں شامل ہوجائیں ۔ ( کہف ، ۱۰۹) ۔
اس آیت میں کلمات خدا سے مراد مخلوقاتِ خدا ہی ہے اور چونکہ حضرت" مسیح " خدا کی عظیم مخلوقات میں سے ایک تھے اس لیے ان پر " کلمہ" کا اطلاق ہوا ہے ۔ ضمناً اس میں حضرت عیسیٰ کی الوہیت کے دعویداروں کا جواب بھی آگیا ہے ۔
۲۔ حضرت عیسیٰ کو مسیح کیوں کہتے ہیں ؟: ممکن ہے یہ اس لئے ہو کہ " مسیح " ک امعنی ہے " مسح کرنے والا "مسح شدہ " اور وہ ناقابل علاج بیماروں کے بدن پر ہاتھ پھیر کر حکمِ خدا سے اسے شفا یاب کردیتے تھے ۔ اس افتخار اور عظمت کی ان کے لئے پہلے سے پیش گوئی کی گئی تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے ولادت سے پہلے ہی ان کانام مسیح رکھ دیا ۔
یا یہ اس بناء پر ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ناپاکی او رگناہ سے مسح یعنی پاک رکھا ۔ ۱
اس آیت میں حضرت مسیح (علیه السلام) کی ولادت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ یہ واقعہ فرشتوں کی طرف سے جناب مریم (علیها السلام) کو بشارت دینے سے شروع ہوتا ہے ۔ فرشتے خدا کی طرف سے جناب مریم کو خوشخبری دیتے ہیں کہ خدا انہیں ایک بچہ دے گاجس کانام مسیح عیسی بن مریم (علیها السلام) ہوگا ۔ وہ دنیا و آخرت میں مقام و عظمت کامالک ہوگا ۔ اور بار گاہ الہٰی کے مقربین میں سے ہوگا " إِذْ قَالَتْ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ إِنَّ اللهَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَم"
چند اہم نکات
۱۔ عیسیٰ (علیه السلام) کو کلمہ کیوں کہا گیا ؟ : اس آیت میں اور دو مزید آیات میں حضرت مسیح (علیه السلام) کو " کلمہ" کے عنوان سے یاد کیاگیا ہے ۔ یہ تعبیر عہد جدید کی کتب میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔
اس بارے میں مفسرین میںاختلاف ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کو " کلمہ " کیوں کہا گیا ہے لیکن زیادہ تر یہی نظر آتا ہے کہ اس کا سبب ان کی غیر معمولی پیدائش ہے جو اس فرمان الہٰی کی مصداق ہے :۔
"انّما ٓ امرہٓ اذا رادا شیئاً ان یقول لہ کن فیکون "
اس کا امر تو بس یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا رادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہوجا بس وہ ہوجاتی ہے ۔ ( یس ٓ۔ ۸۲) یا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ولادت سے پہلے خدا تعالیٰ نے ان کی والدہ کو ایک کلام کے ذریعے بشارت دی تھی ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس تعبیر کی وجہ یہ ہوکہ لفظ " کلمہ " قرآن کی اصطلاح میں مخلوق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، مثلاً:
" قل لوکان البحر مداداً لکمات ربّی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربّی ولو جئنا بمثلہ مددا ۔"
کہہ دیجئے میرے پروردگار کے کلمات لکھنے کے لئے اگر دریا سیاہی بن جائیں تو وہ ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں اگر چہ انہی جتنے اور دریابھی ان میں شامل ہوجائیں ۔ ( کہف ، ۱۰۹) ۔
اس آیت میں کلمات خدا سے مراد مخلوقاتِ خدا ہی ہے اور چونکہ حضرت" مسیح " خدا کی عظیم مخلوقات میں سے ایک تھے اس لیے ان پر " کلمہ" کا اطلاق ہوا ہے ۔ ضمناً اس میں حضرت عیسیٰ کی الوہیت کے دعویداروں کا جواب بھی آگیا ہے ۔
۲۔ حضرت عیسیٰ کو مسیح کیوں کہتے ہیں ؟: ممکن ہے یہ اس لئے ہو کہ " مسیح " ک امعنی ہے " مسح کرنے والا "مسح شدہ " اور وہ ناقابل علاج بیماروں کے بدن پر ہاتھ پھیر کر حکمِ خدا سے اسے شفا یاب کردیتے تھے ۔ اس افتخار اور عظمت کی ان کے لئے پہلے سے پیش گوئی کی گئی تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے ولادت سے پہلے ہی ان کانام مسیح رکھ دیا ۔
یا یہ اس بناء پر ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ناپاکی او رگناہ سے مسح یعنی پاک رکھا ۔ ۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.