مختصر جواب:
مفصل جواب:
قرآن مجید میں سوره «مائده» کی ۱۱۱،آیات سے لیکر ۱۱۵ تک اس مشہور آسمانی دسترخوان کہ جو حضرت عیسی ( علیہ السلام ) کے حواریوں کے لیے نازل ہوا کا واقعہ ذکر ہوا ہے ۔؟
اس مائدیعنی(دسترخوان) آسمانی کے نزول کے مشہور واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: مسیح کے اصحابِ خاص نے حضرت عیسیٰ(علیه السلام) سے کہا کیا تیرا پروردگار ہمارے لیے آسمان سے غذا بھیج سکتا ہے(إِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ ھَلْ یَسْتَطِیعُ رَبُّکَ اٴَنْ یُنَزِّلَ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ) ۔
”مائدہ“ لغت میں خوان، دستر خوان اور طبق کو بھی کہا جاتا ہے اور اُس غذا کو بھی کہتے ہیں جو اُس میں رکھی ہوئی ہو، اصل میں یہ ”مید“ کے مادہ سے بنایا گیا ہے جس کے معنی حرکت دینے اور ہلانے کے ہیں اور شاید دستر خوان اور غذا پر مائدہ کا اطلاق اس نقل وانتقال کی وجہ سے ہی جو اُن میں صورت پذیر ہوتا رہتا ہے ۔
حضرت مسیح(علیه السلام) نے اس مطالبہ پر کہ جس میں ایسے معجزات وآیات دکھانے کے باوجود شک اور تردّد کی بو آرہی تھی، غور کیا اور انھیں تنبیہ کی اور کہا کہ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو خدا سے ڈرو ( قَالَ اتَّقُوا اللهَ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ) ۔
لیکن انھوںنے جلد ہی حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کو بتادیا کہ ہمارا اس مطالبہ سے کوئی غلط مقصد نہیں ہے اور نہ ہی اس میں ہماری کسی ہٹ دھرمی کی غرض پوشیدہ ہے بلکہ ہماری تمنا یہ ہے کہ ہم اس مائدہ میں سے کھائیں (اور آسمانی غذا کے کھانے سے نورانیت ہمارے دل میں پیدا ہوگی، کیونکہ غذا مسلمہ طور پر روح انسانی پر اثر انداز ہوتی ہے، اس کے علاوہ) ہمارے دلوںمیں راحت پیدا ہوگی اور اطمینان حاصل ہوگا اور یہ عظیم معجزہ دیکھنے سے ہم علم الیقین کی سرحد تک پہنچ جائیں گے اور یہ جان لیں گے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا ہے وہ سچ ہے تاکہ ہم اس پر گواہی دے سکیں (قَالُوا نُرِیدُ اٴَنْ نَاٴْکُلَ مِنْھَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ اٴَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُونَ عَلَیْھَا مِنْ الشَّاھِدِینَ) ۔
جب حضرت عیسیٰ(علیه السلام) ان کے اس مطالبہ میں ان کی حُسنِ نیت سے آگاہ ہوئے تو ان کی درخواست کو بارگاہ خداوندی میں اس طرح سے بیان فرمایا کہ خداوندا ہمارے لیے آسمان سے مائدہ بھیج جو ہمارے اوّل وآخر کے لئے عید ہو اور تیری طرف سے ایک نشانی شمار ہو اور ہمیں رزق عطا فرما کہ تو ہی بہترین رزی رساں ہے (قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللهُمَّ رَبَّنَا اٴَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِاٴَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَاٴَنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ) ۔
اس میں یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ(علیه السلام) نے ان کی درخواست کو بہت ہی عمدہ طریقے سے بارگاہ خداوندی میں پیش کیا، جس میں حق طلبی کی روح کا اظہار بھی پایا جاتا ہے اور اجتماعی وعمومی مصالح کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے ۔
خداوند تعالیٰ نے اس دعا کو کہ جو حسنِ نیت اور خلوص کے ساتھ دل سے نکلی تھی قبول کرلیا اور اُن سے فرمایا کہ: میں اس قسم کا مائدہ تم پر نازل کروں گالیکن اس بات پر بھی توجہ رہنی چاہیے کہ اس مائدہ کے اتر نے کے بعد تمھاری ذمہ داری بہت سخت ہوجائے گی اور اس قسم کا واضح معجزہ دیکھنے کے بعد جس شخص نے راہ کفر اختیار کی تو اُسے ایسی سزادوں گا کہ عالمین میں سے کسی کو ایسی سزا نہیں دی ہوگی ( قَالَ اللهُ إِنِّی مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ فَمَنْ یَکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَإِنِّی اٴُعَذِّبُہُ عَذَابًا لاَاٴُعَذِّبُہُ اٴَحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ) ۔
چند ضروری نکات کی یاد دہانی
ان آیات میں چند ایسے نکات ہیں کہ جن کا مطالعہ کرنا ضروری ہے:
۱۔ مائدہ کے مطالبہ سے کیا مراد تھی؟ اس میں توشک نہیں ہے کہ حوارئین اس درخواست میں کوئی بُرا ارادہ نہیں رکھتے تھے اور ان کا مقصد حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کے مقابلے میں ہٹ دھرمی کرنا نہیں تھا بلکہ مزید اطمینان کی جستجو تھا تاکہ ان کے دلوں کی گہرائیوں میں جو شکوک و شبہات اور دسو سے باقی ہیں وہ بھی دور ہوجائیں ۔ کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی مطلب کو استدلال کے ذریعے یہاں تک کہ کبھی کبھی تجربہ کی بنیاد پر بھی ثابت کرلیتا ہے لیکن جب مسئلہ زیادہ اہم ہوتا ہے تو بہت سے دسو سے اور شکوک و شبہات اس کے دل کے گوشوں میں باقی رہ جاتے ہیں لہٰذا اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ یا تو بار بار کے تجربے اور آزمائش کے ذریعے اور یا استدلال علمی کو عینی مشاہدات کے ساتھ بدل کر شکوک و شبہات اور دسوسوں کو اپنے دل کی گہرائیوں سے اکھاڑ کر پھینک دے ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) باوجود اس کے کہ وہ ایمان و یقین کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے پھر بھی خداوند تعالیٰ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ مسئلہ معاد کا اپنی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ کریں تاکہ ان کا وہ ایمان جو آز روئے علم تھا ”عین الیقین“ اور شہود سے بدل جائے ۔
لیکن اس سبب سے کہ حواریوں کے مطالبہ کا ظاہری طور پر جو مطلب نکلتا تھا وہ چھبتا ہوا معلوم ہوتا تھا لہٰذا حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے اسے بہانہ جوئی پر محلول کیا اور ان پر اعتراض کیا، لیکن جب انہوں نے کافی وضاحت کے ساتھ اپنا مقصد روشن کردیا تو حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے بھی ان کی بات کو تسلیم کرلیا ۔
۲ ۔ ”ہَلْ ییَسْتَطِیْعُ رَبُُکَ“ سے کیا مراد ہے؟ مسلمہ طور پر ابتدا میںیہ جملہ یہی معنی دیتا ہے کہ حوارئین نزول مائدہ کے سلسلے میں قدرت خدا میں شک رکھتے تھے لیکن اس کی تفسیر میں اسلامی مفسّرین کے بعض بیانات جالب نظر ہیں، پہلا یہ کہ یہ درخواست انھوں نے ابتدائے کار میں کی تھی، جبکہ وہ مکمل طور پر صفات خداوندی سے آشنا نہیں ہوئے تھے، دوسرا یہ کہ ان کی مراد یہ تھی کہ کیا خداوند تعالیٰ کے نزدیک اس میں مصلحت ہے کہ وہ اس قسم کا مائدہ ہم پر نازل کردے، جیسا کہ مثال کے طور پر ایک شخص دوسرے سے یہ کہے کہ میں اپنی ساری دولت فلاں شخص کے ہاتھ میں نہیں دے سکتا، یعنی میں اس میں مصلحت نہیں سمجھتا ، نہ یہ کہ میں قدرت نہیں رکھتا، تیسرا یہ کہ ”یستطیع“ کا معنی ”یستجیب“ ہو، کیونکہ مادہ طوع کا معنی انقیاد ومطیع ہونا ہے اور جب وہ باب (استفعال) میں چلا جائے تو پھر اس سے یہ مطلب لیا جاسکتا ہے ۔ اس بناپر اس جملے کا یہ معنی ہوگا کہ کیا تیرا پروردگار ہماری اس بات کو قبول کرے گا کہ آسمانی مائدہ ہم پر نال کرے ۔
۳۔ یہ آسمانی مائدہ کیا تھا؟ یہ آسمانی مائدہ جن چیزوں پر مشتمل تھا ان کے بارے میں قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں ہے لیکن احادیث میں کہ جن میں سے ایک حدیث امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھانا چند روٹیاں اور چند مچھلیاں تھیں ۔ شایداس قسم کے معجزے کے مطالبے کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے سُن رکھا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ سے بنی اسرائیل پر مائدہ آسمانی اُترا تھا ۔ لہٰذا انھوں نے بھی حضرت عیسی(علیه السلام)ٰ سے اسی قسم کا تقاضا کیا ۔۱
اس مائدیعنی(دسترخوان) آسمانی کے نزول کے مشہور واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: مسیح کے اصحابِ خاص نے حضرت عیسیٰ(علیه السلام) سے کہا کیا تیرا پروردگار ہمارے لیے آسمان سے غذا بھیج سکتا ہے(إِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ ھَلْ یَسْتَطِیعُ رَبُّکَ اٴَنْ یُنَزِّلَ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ) ۔
”مائدہ“ لغت میں خوان، دستر خوان اور طبق کو بھی کہا جاتا ہے اور اُس غذا کو بھی کہتے ہیں جو اُس میں رکھی ہوئی ہو، اصل میں یہ ”مید“ کے مادہ سے بنایا گیا ہے جس کے معنی حرکت دینے اور ہلانے کے ہیں اور شاید دستر خوان اور غذا پر مائدہ کا اطلاق اس نقل وانتقال کی وجہ سے ہی جو اُن میں صورت پذیر ہوتا رہتا ہے ۔
حضرت مسیح(علیه السلام) نے اس مطالبہ پر کہ جس میں ایسے معجزات وآیات دکھانے کے باوجود شک اور تردّد کی بو آرہی تھی، غور کیا اور انھیں تنبیہ کی اور کہا کہ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو خدا سے ڈرو ( قَالَ اتَّقُوا اللهَ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ) ۔
لیکن انھوںنے جلد ہی حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کو بتادیا کہ ہمارا اس مطالبہ سے کوئی غلط مقصد نہیں ہے اور نہ ہی اس میں ہماری کسی ہٹ دھرمی کی غرض پوشیدہ ہے بلکہ ہماری تمنا یہ ہے کہ ہم اس مائدہ میں سے کھائیں (اور آسمانی غذا کے کھانے سے نورانیت ہمارے دل میں پیدا ہوگی، کیونکہ غذا مسلمہ طور پر روح انسانی پر اثر انداز ہوتی ہے، اس کے علاوہ) ہمارے دلوںمیں راحت پیدا ہوگی اور اطمینان حاصل ہوگا اور یہ عظیم معجزہ دیکھنے سے ہم علم الیقین کی سرحد تک پہنچ جائیں گے اور یہ جان لیں گے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا ہے وہ سچ ہے تاکہ ہم اس پر گواہی دے سکیں (قَالُوا نُرِیدُ اٴَنْ نَاٴْکُلَ مِنْھَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ اٴَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُونَ عَلَیْھَا مِنْ الشَّاھِدِینَ) ۔
جب حضرت عیسیٰ(علیه السلام) ان کے اس مطالبہ میں ان کی حُسنِ نیت سے آگاہ ہوئے تو ان کی درخواست کو بارگاہ خداوندی میں اس طرح سے بیان فرمایا کہ خداوندا ہمارے لیے آسمان سے مائدہ بھیج جو ہمارے اوّل وآخر کے لئے عید ہو اور تیری طرف سے ایک نشانی شمار ہو اور ہمیں رزق عطا فرما کہ تو ہی بہترین رزی رساں ہے (قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللهُمَّ رَبَّنَا اٴَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِاٴَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَاٴَنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ) ۔
اس میں یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ(علیه السلام) نے ان کی درخواست کو بہت ہی عمدہ طریقے سے بارگاہ خداوندی میں پیش کیا، جس میں حق طلبی کی روح کا اظہار بھی پایا جاتا ہے اور اجتماعی وعمومی مصالح کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے ۔
خداوند تعالیٰ نے اس دعا کو کہ جو حسنِ نیت اور خلوص کے ساتھ دل سے نکلی تھی قبول کرلیا اور اُن سے فرمایا کہ: میں اس قسم کا مائدہ تم پر نازل کروں گالیکن اس بات پر بھی توجہ رہنی چاہیے کہ اس مائدہ کے اتر نے کے بعد تمھاری ذمہ داری بہت سخت ہوجائے گی اور اس قسم کا واضح معجزہ دیکھنے کے بعد جس شخص نے راہ کفر اختیار کی تو اُسے ایسی سزادوں گا کہ عالمین میں سے کسی کو ایسی سزا نہیں دی ہوگی ( قَالَ اللهُ إِنِّی مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ فَمَنْ یَکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَإِنِّی اٴُعَذِّبُہُ عَذَابًا لاَاٴُعَذِّبُہُ اٴَحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ) ۔
چند ضروری نکات کی یاد دہانی
ان آیات میں چند ایسے نکات ہیں کہ جن کا مطالعہ کرنا ضروری ہے:
۱۔ مائدہ کے مطالبہ سے کیا مراد تھی؟ اس میں توشک نہیں ہے کہ حوارئین اس درخواست میں کوئی بُرا ارادہ نہیں رکھتے تھے اور ان کا مقصد حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کے مقابلے میں ہٹ دھرمی کرنا نہیں تھا بلکہ مزید اطمینان کی جستجو تھا تاکہ ان کے دلوں کی گہرائیوں میں جو شکوک و شبہات اور دسو سے باقی ہیں وہ بھی دور ہوجائیں ۔ کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی مطلب کو استدلال کے ذریعے یہاں تک کہ کبھی کبھی تجربہ کی بنیاد پر بھی ثابت کرلیتا ہے لیکن جب مسئلہ زیادہ اہم ہوتا ہے تو بہت سے دسو سے اور شکوک و شبہات اس کے دل کے گوشوں میں باقی رہ جاتے ہیں لہٰذا اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ یا تو بار بار کے تجربے اور آزمائش کے ذریعے اور یا استدلال علمی کو عینی مشاہدات کے ساتھ بدل کر شکوک و شبہات اور دسوسوں کو اپنے دل کی گہرائیوں سے اکھاڑ کر پھینک دے ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) باوجود اس کے کہ وہ ایمان و یقین کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے پھر بھی خداوند تعالیٰ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ مسئلہ معاد کا اپنی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ کریں تاکہ ان کا وہ ایمان جو آز روئے علم تھا ”عین الیقین“ اور شہود سے بدل جائے ۔
لیکن اس سبب سے کہ حواریوں کے مطالبہ کا ظاہری طور پر جو مطلب نکلتا تھا وہ چھبتا ہوا معلوم ہوتا تھا لہٰذا حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے اسے بہانہ جوئی پر محلول کیا اور ان پر اعتراض کیا، لیکن جب انہوں نے کافی وضاحت کے ساتھ اپنا مقصد روشن کردیا تو حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے بھی ان کی بات کو تسلیم کرلیا ۔
۲ ۔ ”ہَلْ ییَسْتَطِیْعُ رَبُُکَ“ سے کیا مراد ہے؟ مسلمہ طور پر ابتدا میںیہ جملہ یہی معنی دیتا ہے کہ حوارئین نزول مائدہ کے سلسلے میں قدرت خدا میں شک رکھتے تھے لیکن اس کی تفسیر میں اسلامی مفسّرین کے بعض بیانات جالب نظر ہیں، پہلا یہ کہ یہ درخواست انھوں نے ابتدائے کار میں کی تھی، جبکہ وہ مکمل طور پر صفات خداوندی سے آشنا نہیں ہوئے تھے، دوسرا یہ کہ ان کی مراد یہ تھی کہ کیا خداوند تعالیٰ کے نزدیک اس میں مصلحت ہے کہ وہ اس قسم کا مائدہ ہم پر نازل کردے، جیسا کہ مثال کے طور پر ایک شخص دوسرے سے یہ کہے کہ میں اپنی ساری دولت فلاں شخص کے ہاتھ میں نہیں دے سکتا، یعنی میں اس میں مصلحت نہیں سمجھتا ، نہ یہ کہ میں قدرت نہیں رکھتا، تیسرا یہ کہ ”یستطیع“ کا معنی ”یستجیب“ ہو، کیونکہ مادہ طوع کا معنی انقیاد ومطیع ہونا ہے اور جب وہ باب (استفعال) میں چلا جائے تو پھر اس سے یہ مطلب لیا جاسکتا ہے ۔ اس بناپر اس جملے کا یہ معنی ہوگا کہ کیا تیرا پروردگار ہماری اس بات کو قبول کرے گا کہ آسمانی مائدہ ہم پر نال کرے ۔
۳۔ یہ آسمانی مائدہ کیا تھا؟ یہ آسمانی مائدہ جن چیزوں پر مشتمل تھا ان کے بارے میں قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں ہے لیکن احادیث میں کہ جن میں سے ایک حدیث امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھانا چند روٹیاں اور چند مچھلیاں تھیں ۔ شایداس قسم کے معجزے کے مطالبے کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے سُن رکھا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ سے بنی اسرائیل پر مائدہ آسمانی اُترا تھا ۔ لہٰذا انھوں نے بھی حضرت عیسی(علیه السلام)ٰ سے اسی قسم کا تقاضا کیا ۔۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.