مختصر جواب:
مفصل جواب:
خدامتعال نےسوره «مائده» کی آیت نمبر ۱۱۰ میں ان نعمات کا اشاره کیا ہے جو جناب عیسی پر نازل کی تھیں
یہ آیت اور سورہٴ مائدہ کے آخر تک بعد والی آیات حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کی سرگذشت اور ان انعامات سے مربوط ہیں جو آنجناب(علیه السلام) اور ان کی اُمت کو بخشی گئیں اور وہ یہاں پرمسلمانوں کی بیداری اور آگاہی کے لئے بیان ہوئی ہیں پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب خدا نے عیسیٰ (علیه السلام) ابن مریم سے فرمایا کہ تم اُس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمھاری والدہ پر کی (إِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِی عَلَیْکَ وَعَلی وَالِدَتِکَ) ۔
اس تفسیر کے مطابق اوپر والی آیات ایک مستقل بحث شروع کررہی ہیں جو مسلمانوں کے لئے تربیتی پہلو رکھتی ہے اور اس کا اسی دنیا کے ساتھ ربط ہے، لیکن بعض مفسرین مثلاً طبرسیۺ، بیضاوی اور ابوالفتوح رازی نے یہ احتمال دیا ہے کہ یہ آیت پہلی آیت کا ضمیمہ ہے اور اس کا ربط ان سوالات اور باتوں سے ہے جو خداوند تعالیٰ قیامت کے دن پیغمبروں سے کرے گا اور اس بناپر ”قَالَ “ جو فعل ماضی ہے یہاں ”یقول“ یعنی فعل مضارع کے معنی میں ہوگا، لیکن یہ احتمال ظاہرِ آیت کے خلاف ہے، خاص طور پر جبکہ معمول یہ ہے کہ کسی کے لئے نعمتوں کا شمار کرنا اس میں روحِ شکرگزاری زندہ کرنے کی غرض سے ہوتا ہے، جبکہ قیامت میں یہ مسئلہ زیر بحث نہیں آئے گا ۔ اس کے بعد اپنی نعمات کا ذکر شروع کردیا ہے، پہلے کہتا ہے: میں نے تجھے روح القدس کے ذریعے تقویت دی ہے (إِذْ اٴَیَّدتُّکَ بِرُوحِ الْقُدُسِ ) ۔
روح قدس کے معنی کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد اوّل میں تفصیل سے بحث ہوچکی ہے(۱)
خلاصہ یہ کہ ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وحی لانے والا فرشتہ یعنی جبرئیل ہو، اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وہی غیبی طاقت ہو جو حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کو معجزے دکھانے اور رسالت کے کام سرانجام دینے کے لئے تقویت دیتی تھی اور یہ چیز انبیاء(علیه السلام) کے علاوہ دوسروں میں بھی ضعیف تر درجہ موجود ہوتی ہے ۔ نعمات الٰہی میں سے دوسری نعمت تجھ پر یہ ہے کہ روح القدس کی تائید کے ذریعے تو گہوراے میں اور پختہ کار ہوکر گفتگو کرتا تھا (تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًا ) ۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ تیری گہوارہ کی باتیں بھی بڑے ہونے کے بعد کی باتوں کی مانند پختہ اور جچی تلی ہوتی تھیں اور وہ بچوں کی طرح بے وزن نہیں ہوتی تھیں ۔
تیسری نعمت یہ کہ میں نے تجھے کتاب وحکمت اور تورات وانجیل کی تعلیم دی (وَإِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ) ۔ کتاب کے ذکر کے بعد تورات وانجیل کا تذکرہ ہے جبکہ وہ بھی آسمانی کتابوں میں سے ہیں حقیقت میں اجمال کے بعد تفصیل کی صورت میں ہے ۔
چوتھی نعمت یہ ہے کہ تُو میرے حکم سے پرندے کی شکل کی ایک چیز مٹی سے بناتا تھا اس کے بعد اس میں پھونکتا تھا تو وہ میرے حکم سے ایک زندہ پرندہ ہوجاتی تھی (وَإِذْ تَخْلُقُ مِنْ الطِّینِ کَھَیْئَةِ الطَّیْرِ بِإِذْنِی فَتَنفُخُ فِیھَا فَتَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِی) ۔
پانچویں نعمت یہ ہے کہ تو میرے اذن سے مادر زاد واندھے اور برص کی بیماری میں مبتلا شخص کو شفا دیتا تھا (وَتُبْرِءُ الْاٴَکْمَہَ وَالْاٴَبْرَصَ بِإِذْنِی) ۔ اور بالآخر میری نعمتوں میں سے ایک اور نعمت تجھ پر یہ تھی کہ میں نے بنی اسرائیل کو تجھے پہنچانے سے اس وقت باز رکھا جبکہ ان کے کافر تیرے واضح اور روشن دلائل کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے اور انھیں کھلا جادو کہنے لگے، میں نے اس تمام شور وغل اور سخت اور ہٹ دھرم دشمنوں کے مقابلے میں تیری حفاظت کی تاکہ تو اپنی دعوت کو آگے بڑھاسکے (وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَی بِإِذْنِی وَإِذْ کَفَفْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَنْکَ إِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْھُمْ إِنْ ھَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِینٌ) ۔
یہاں پر ایک بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں چار مرتبہ لفظ ”باذنی“ (میرے حکم سے)دُہرایا گیا ہے تاکہ حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کے لئے غلو اور دعائے الوہیت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے، یعنی جو کچھ وہ انجام دیتے تھے اگرچہ بہت عجیب وغریب اور حیرت انگیز تھا اور خدائی کاموں کے ساتھ شباہت رکھتا تھا لیکن اُن میں سے کام خود عیسی(علیه السلام)ٰ کی طرف سے نہیں تھا کہ بلکہ یہ سب کام خدا کی طرف سے انجام پذیر ہوتے تھے، وہ ایک بندہٴ خدا تھے اور خداوندتعالیٰ کے تابع فرمان تھے اور ان کے پاس جو کچھ بھی تھا وہ خدائے لایزال کی قدرت سے تھا ۔
ہوسکتا ہے یہ کہا جائے کہ یہ تمام نعمتیں حضرت عیسی(علیه السلام)کے ساتھ مربوط تھیں تو اس آیت میں ان نعمتوں کو ان کی والدہ جناب مریم(علیه السلام) کے لئے بھی نعمت کیوں شمار کیا گیا ۔2
یہ آیت اور سورہٴ مائدہ کے آخر تک بعد والی آیات حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کی سرگذشت اور ان انعامات سے مربوط ہیں جو آنجناب(علیه السلام) اور ان کی اُمت کو بخشی گئیں اور وہ یہاں پرمسلمانوں کی بیداری اور آگاہی کے لئے بیان ہوئی ہیں پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب خدا نے عیسیٰ (علیه السلام) ابن مریم سے فرمایا کہ تم اُس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمھاری والدہ پر کی (إِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِی عَلَیْکَ وَعَلی وَالِدَتِکَ) ۔
اس تفسیر کے مطابق اوپر والی آیات ایک مستقل بحث شروع کررہی ہیں جو مسلمانوں کے لئے تربیتی پہلو رکھتی ہے اور اس کا اسی دنیا کے ساتھ ربط ہے، لیکن بعض مفسرین مثلاً طبرسیۺ، بیضاوی اور ابوالفتوح رازی نے یہ احتمال دیا ہے کہ یہ آیت پہلی آیت کا ضمیمہ ہے اور اس کا ربط ان سوالات اور باتوں سے ہے جو خداوند تعالیٰ قیامت کے دن پیغمبروں سے کرے گا اور اس بناپر ”قَالَ “ جو فعل ماضی ہے یہاں ”یقول“ یعنی فعل مضارع کے معنی میں ہوگا، لیکن یہ احتمال ظاہرِ آیت کے خلاف ہے، خاص طور پر جبکہ معمول یہ ہے کہ کسی کے لئے نعمتوں کا شمار کرنا اس میں روحِ شکرگزاری زندہ کرنے کی غرض سے ہوتا ہے، جبکہ قیامت میں یہ مسئلہ زیر بحث نہیں آئے گا ۔ اس کے بعد اپنی نعمات کا ذکر شروع کردیا ہے، پہلے کہتا ہے: میں نے تجھے روح القدس کے ذریعے تقویت دی ہے (إِذْ اٴَیَّدتُّکَ بِرُوحِ الْقُدُسِ ) ۔
روح قدس کے معنی کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد اوّل میں تفصیل سے بحث ہوچکی ہے(۱)
خلاصہ یہ کہ ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وحی لانے والا فرشتہ یعنی جبرئیل ہو، اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وہی غیبی طاقت ہو جو حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کو معجزے دکھانے اور رسالت کے کام سرانجام دینے کے لئے تقویت دیتی تھی اور یہ چیز انبیاء(علیه السلام) کے علاوہ دوسروں میں بھی ضعیف تر درجہ موجود ہوتی ہے ۔ نعمات الٰہی میں سے دوسری نعمت تجھ پر یہ ہے کہ روح القدس کی تائید کے ذریعے تو گہوراے میں اور پختہ کار ہوکر گفتگو کرتا تھا (تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًا ) ۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ تیری گہوارہ کی باتیں بھی بڑے ہونے کے بعد کی باتوں کی مانند پختہ اور جچی تلی ہوتی تھیں اور وہ بچوں کی طرح بے وزن نہیں ہوتی تھیں ۔
تیسری نعمت یہ کہ میں نے تجھے کتاب وحکمت اور تورات وانجیل کی تعلیم دی (وَإِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ) ۔ کتاب کے ذکر کے بعد تورات وانجیل کا تذکرہ ہے جبکہ وہ بھی آسمانی کتابوں میں سے ہیں حقیقت میں اجمال کے بعد تفصیل کی صورت میں ہے ۔
چوتھی نعمت یہ ہے کہ تُو میرے حکم سے پرندے کی شکل کی ایک چیز مٹی سے بناتا تھا اس کے بعد اس میں پھونکتا تھا تو وہ میرے حکم سے ایک زندہ پرندہ ہوجاتی تھی (وَإِذْ تَخْلُقُ مِنْ الطِّینِ کَھَیْئَةِ الطَّیْرِ بِإِذْنِی فَتَنفُخُ فِیھَا فَتَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِی) ۔
پانچویں نعمت یہ ہے کہ تو میرے اذن سے مادر زاد واندھے اور برص کی بیماری میں مبتلا شخص کو شفا دیتا تھا (وَتُبْرِءُ الْاٴَکْمَہَ وَالْاٴَبْرَصَ بِإِذْنِی) ۔ اور بالآخر میری نعمتوں میں سے ایک اور نعمت تجھ پر یہ تھی کہ میں نے بنی اسرائیل کو تجھے پہنچانے سے اس وقت باز رکھا جبکہ ان کے کافر تیرے واضح اور روشن دلائل کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے اور انھیں کھلا جادو کہنے لگے، میں نے اس تمام شور وغل اور سخت اور ہٹ دھرم دشمنوں کے مقابلے میں تیری حفاظت کی تاکہ تو اپنی دعوت کو آگے بڑھاسکے (وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَی بِإِذْنِی وَإِذْ کَفَفْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَنْکَ إِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْھُمْ إِنْ ھَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِینٌ) ۔
یہاں پر ایک بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں چار مرتبہ لفظ ”باذنی“ (میرے حکم سے)دُہرایا گیا ہے تاکہ حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کے لئے غلو اور دعائے الوہیت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے، یعنی جو کچھ وہ انجام دیتے تھے اگرچہ بہت عجیب وغریب اور حیرت انگیز تھا اور خدائی کاموں کے ساتھ شباہت رکھتا تھا لیکن اُن میں سے کام خود عیسی(علیه السلام)ٰ کی طرف سے نہیں تھا کہ بلکہ یہ سب کام خدا کی طرف سے انجام پذیر ہوتے تھے، وہ ایک بندہٴ خدا تھے اور خداوندتعالیٰ کے تابع فرمان تھے اور ان کے پاس جو کچھ بھی تھا وہ خدائے لایزال کی قدرت سے تھا ۔
ہوسکتا ہے یہ کہا جائے کہ یہ تمام نعمتیں حضرت عیسی(علیه السلام)کے ساتھ مربوط تھیں تو اس آیت میں ان نعمتوں کو ان کی والدہ جناب مریم(علیه السلام) کے لئے بھی نعمت کیوں شمار کیا گیا ۔2
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.