مختصر جواب:
مفصل جواب:
علماء اہل سنت نے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں کہ جو دلالت کرتی ہین کہ بعض صحابہ اور تابعین نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حیات اور ان کی وفات کے بعد پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے تبرک حاصل کیا ہے۔ ہم نمونے کے طور پر یہاں چند روایات کو قارئین کی خد مت میں ذکر کرتے ہیں ۔
۱۔بخاری بعض روایات کو ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں : یک مرتبہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وادی بطحا (بیابان مکہ) کی طرف جانے کے لئے اپنے بیت الشرف سے نکلے اور نماز کے وقت آپ نے وضو کیاوضو کے بعد باقی بچے ہوئے پانی کومسلمانوں نے اٹھا لیا اور اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مل لیا (۱) ۔
دیگر روایات میں اس طرح کی تعبیربیان ہوئی :
”اذا توضا النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کادوا یقتتلون علی وضوئہ“جس وقت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے وضو کیا تو (اس وضو کے پانی کو حاصل کرنے کی وجہ سے)گویامسلمان ایک دوسرے سے جنگ کرنے لگے (۲) ۔
۲۔ ایک روایت کو انس بن مالک نے نقل کیا ہے :
وہ کہتے ہیں: میںنے رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس حالت میں دیکھا کہ نائی آپ کے سر کے بال کاٹ رہا ہے اور آپ کے اصحاب آپ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک یہ کوشش کر رہاتھا کہ کسی طرح سے رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا ایک بال ہم کو مل کائے اور کوئی بھی بال نیچے نہ گرے (۳) ۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کچھ بال آپ کی زوجہ محترمہ ام المومنین ام سلمہ کے پا س موجود تھے جب کوئی شخص آنکھوں کے مرض میں مبتلاء ہوتا تو ایک پیالا پانی سے بھرا ہوا انکے پاس لے جاتے اور وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بالوں کو اس پانی میںڈال دیتیں اور مریض کو ان بالوں کے ذریعے سے شفاء مل جاتی تھی (۴) ۔
خالد بن ولید کے متعلق بھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بال سے تبرک طلب کرنے کواس طرح ذکر کیا گیا ہے: خالد بن ولیدنے ایران اور روم سے جنگ کرنے میں بہت کوشش کی ہے اور اس نے دمشق کو بھیی فتح کیا تھا ۔خالد بن ولیدجنگ میں اپنے سر پرایک ٹوپی اوڑھتاتھا اور اس میں رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چند بال رکھ لیا کرتا تھا اور ان بولوں کی برکت کی وجہ سے وہ جنگ جیت لیا کرتا تھا اور ہمیشہ فتح اس کی ہوا کرتی تھی (۵) ۔
اسی طرح کے بہت سے واقعات ملتے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے تبرک طلب کرنا ایک صحیح اور ممدوح و معروف فعل ہے نہ کہ یہ فعل بدعت اور شرک ہے ۔
۳۔ ابوبردہ نے کہاہے: عبد اللہ بن سلام نے ایک روز مجھ سے کہا :کیا تم چاہتے ہو کہ جس پیالے میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پانی پیا کرتے تھے ، تمہیں اس پیالے میں پانی پلاؤں؟(۶) ۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عبد اللہ بن سلام کے پاس وہ پیالہ تھا جس میں پیغمبر اسلام پانی نوش فرمایا کرتے تھے اور اسی پیالے کو عبد اللہ بن سلام نے تبرک کے طور پر محفوظ رکھا ہوا تھا ۔
۴۔صحیح بخاری کی وہ روایت جس میں پیغمبر اسلام کے دست مبارک کوبوسہ دینے کے متعلق ذکر ہوا ہے، اس کا مضمون اس طرح ہے: یک مرتبہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وادی بطحا (بیابان مکہ) کی طرف جانے کے لئے اپنے بیت الشرف سے نکلے اور نماز کے وقت آپ نے وضو کیا اور دو رکعت نماز ظہر اور دو رکعت نماز عصر بجا لائے پھر وہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ آپ کے ہاتھوں کو پکڑکراپنے چہروں پر ملنے لگے ۔راوی کہتا ہے کہ میں نے بھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہاتھوں کو پکڑکر اپنے چہرہ پر ملنے لگا تو اس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دست مبارک برف سے زیادہ ٹھنڈے اور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھے (۷) ۔
۴۔وہ روایت جو مسند احمد میں حنظلہ کے متعلق بیان ہوئی ہے وہ اس طرح سے ہے:
حنظلہ کہتے ہیں کہ میرے والد ایک روز مجھے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خد مت میں لے گئے اور آپ سے فرمایا: یا رسول اللہ میرا بیٹے جوان ہو گئے ہیں اور میرا یہ بیٹا سب سے چھوٹا ہے آپ اس کے لئے خدا کی بارگا ہ میں دعا فرمائیں راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا : پروردگارا! اس فرزند کے لئے اپنی رحمتیں نازل فرما ۔
راوی کہتا ہے: اس کے بعد میں نے حنظلہ کو دیکھا کہ جب کسی شخص یا کسی جانور کے ورم آجاتی تو اس کو حنظلہ کے پاس لیکر آتے اور وہ اللہ کا نام لے کر اپنے سر پر اس جگہ ہاتھ رکھتے جہاں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا تھا پھر اس ہاتھ کو ورم کی جگہ رکھتے اور ورم ختم ہوجاتی (۸) ۔
لہذا ہماری نظر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ضریح پر ہاتھ پھیرنا یا انکی قبر مبارک کے قریب نماز پڑھنا اور اسی طرح سے آئمہ علیہم السلام سے تبرک طلب کرنا ، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس پانی کے پیالے سے کم نہیں ہے اور نہ ہی موجب شرک وبدعت ہے بلکہ بعض افراد کے لئے اس میں بھی شفاء ہے اور اگر یہ شرک ہے تو پھر وہ تمام چیزیں جو مورخین نے تاریخ کی کتابو ں میں ذکر کی ہیں وہ سب انکے لکھنے والوں کے شرک پر دلالت کرتی ہیں جبکہ کوئی بھی اس طرح کی فکر و اعتقاد نہیں رکھتا ہے (۹) ۔
۱۔بخاری بعض روایات کو ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں : یک مرتبہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وادی بطحا (بیابان مکہ) کی طرف جانے کے لئے اپنے بیت الشرف سے نکلے اور نماز کے وقت آپ نے وضو کیاوضو کے بعد باقی بچے ہوئے پانی کومسلمانوں نے اٹھا لیا اور اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مل لیا (۱) ۔
دیگر روایات میں اس طرح کی تعبیربیان ہوئی :
”اذا توضا النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کادوا یقتتلون علی وضوئہ“جس وقت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے وضو کیا تو (اس وضو کے پانی کو حاصل کرنے کی وجہ سے)گویامسلمان ایک دوسرے سے جنگ کرنے لگے (۲) ۔
۲۔ ایک روایت کو انس بن مالک نے نقل کیا ہے :
وہ کہتے ہیں: میںنے رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس حالت میں دیکھا کہ نائی آپ کے سر کے بال کاٹ رہا ہے اور آپ کے اصحاب آپ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک یہ کوشش کر رہاتھا کہ کسی طرح سے رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا ایک بال ہم کو مل کائے اور کوئی بھی بال نیچے نہ گرے (۳) ۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کچھ بال آپ کی زوجہ محترمہ ام المومنین ام سلمہ کے پا س موجود تھے جب کوئی شخص آنکھوں کے مرض میں مبتلاء ہوتا تو ایک پیالا پانی سے بھرا ہوا انکے پاس لے جاتے اور وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بالوں کو اس پانی میںڈال دیتیں اور مریض کو ان بالوں کے ذریعے سے شفاء مل جاتی تھی (۴) ۔
خالد بن ولید کے متعلق بھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بال سے تبرک طلب کرنے کواس طرح ذکر کیا گیا ہے: خالد بن ولیدنے ایران اور روم سے جنگ کرنے میں بہت کوشش کی ہے اور اس نے دمشق کو بھیی فتح کیا تھا ۔خالد بن ولیدجنگ میں اپنے سر پرایک ٹوپی اوڑھتاتھا اور اس میں رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چند بال رکھ لیا کرتا تھا اور ان بولوں کی برکت کی وجہ سے وہ جنگ جیت لیا کرتا تھا اور ہمیشہ فتح اس کی ہوا کرتی تھی (۵) ۔
اسی طرح کے بہت سے واقعات ملتے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے تبرک طلب کرنا ایک صحیح اور ممدوح و معروف فعل ہے نہ کہ یہ فعل بدعت اور شرک ہے ۔
۳۔ ابوبردہ نے کہاہے: عبد اللہ بن سلام نے ایک روز مجھ سے کہا :کیا تم چاہتے ہو کہ جس پیالے میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پانی پیا کرتے تھے ، تمہیں اس پیالے میں پانی پلاؤں؟(۶) ۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عبد اللہ بن سلام کے پاس وہ پیالہ تھا جس میں پیغمبر اسلام پانی نوش فرمایا کرتے تھے اور اسی پیالے کو عبد اللہ بن سلام نے تبرک کے طور پر محفوظ رکھا ہوا تھا ۔
۴۔صحیح بخاری کی وہ روایت جس میں پیغمبر اسلام کے دست مبارک کوبوسہ دینے کے متعلق ذکر ہوا ہے، اس کا مضمون اس طرح ہے: یک مرتبہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وادی بطحا (بیابان مکہ) کی طرف جانے کے لئے اپنے بیت الشرف سے نکلے اور نماز کے وقت آپ نے وضو کیا اور دو رکعت نماز ظہر اور دو رکعت نماز عصر بجا لائے پھر وہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ آپ کے ہاتھوں کو پکڑکراپنے چہروں پر ملنے لگے ۔راوی کہتا ہے کہ میں نے بھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہاتھوں کو پکڑکر اپنے چہرہ پر ملنے لگا تو اس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دست مبارک برف سے زیادہ ٹھنڈے اور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھے (۷) ۔
۴۔وہ روایت جو مسند احمد میں حنظلہ کے متعلق بیان ہوئی ہے وہ اس طرح سے ہے:
حنظلہ کہتے ہیں کہ میرے والد ایک روز مجھے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خد مت میں لے گئے اور آپ سے فرمایا: یا رسول اللہ میرا بیٹے جوان ہو گئے ہیں اور میرا یہ بیٹا سب سے چھوٹا ہے آپ اس کے لئے خدا کی بارگا ہ میں دعا فرمائیں راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا : پروردگارا! اس فرزند کے لئے اپنی رحمتیں نازل فرما ۔
راوی کہتا ہے: اس کے بعد میں نے حنظلہ کو دیکھا کہ جب کسی شخص یا کسی جانور کے ورم آجاتی تو اس کو حنظلہ کے پاس لیکر آتے اور وہ اللہ کا نام لے کر اپنے سر پر اس جگہ ہاتھ رکھتے جہاں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا تھا پھر اس ہاتھ کو ورم کی جگہ رکھتے اور ورم ختم ہوجاتی (۸) ۔
لہذا ہماری نظر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ضریح پر ہاتھ پھیرنا یا انکی قبر مبارک کے قریب نماز پڑھنا اور اسی طرح سے آئمہ علیہم السلام سے تبرک طلب کرنا ، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس پانی کے پیالے سے کم نہیں ہے اور نہ ہی موجب شرک وبدعت ہے بلکہ بعض افراد کے لئے اس میں بھی شفاء ہے اور اگر یہ شرک ہے تو پھر وہ تمام چیزیں جو مورخین نے تاریخ کی کتابو ں میں ذکر کی ہیں وہ سب انکے لکھنے والوں کے شرک پر دلالت کرتی ہیں جبکہ کوئی بھی اس طرح کی فکر و اعتقاد نہیں رکھتا ہے (۹) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.