مختصر جواب:
مفصل جواب:
بت پرستی کی ابتد اء کا تعین بہت مشکل ہے ۔قدیم ترین زمانے سے جہاں تک ہمیں انسانوں کی تاریخ معلوم ہے یہ بت پرستی ان لوگوں میں موجود رہی ہے ہجو پست فکر اور گھٹیا تھے۔بت پرستی در اصل خدا پرستی کے عقیدے کی ایک تحریف ہے ۔ خدا پرستی دراصل انسانو ں کی فطرت اور سرشت کا جزء ہے اور شروع سے انسان اسی فطرت اور سر شت کا مالک رہاہے لہذا اس کی تحریف بھی پست افراد میں ہمیشہ رہی ہے لہذا کہا جاسکتا ہے کہ بت پرستی کی تاریخ تقریبا تاریخ انسان کے ساتھ ساتھ شروع ہوتی ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسان اپنی سرشت اور خلقت کے تقاضے کی بناء پر طبیعات سے ماوراء ایک قوت کی طرف متوجہ تھا ،نظام ہستی کے واضح استدلالات اس سرشت کی تائید کرتے تھے اور ایک ایسے مبداء کی نشان دہی کرتے ہیں کہ جو عالم وقادر ہے اورانسان سرشت اور عقل کے ان دونوں طریقو ں سے کم و بیش وہمیشہ ہی اس مبداء ہستی سے آشنا رہا ہے ۔
لیکن بھو ک کا احساس جو اس بچہ میں موجود ہے اگر بر محل اس کی رہبر ی نہ کی جا ئے اور اسے صحیح غذا نہ دی جائے تو پھر وہ کیچڑ اور اس جیسی چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھا نے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ ایسی چیزوں کا عادی ہو جاتا ہے اور اپنی صحت وسلامتی کو کھو بیٹھتا ہے اور اسی طرح انسان کی عقل وفطرت کو ملحوظ رکھتے ہو ئے بروقت رہنمائی میسر نہ آئے تو وہ مصنو عی خدا اور طرح طرح کے بتوں کا رخ کرلیتا ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کربیٹھتا ہے اور ان کے لئے خدائی ڈ صفات کاقائل ہو جا تا ہے ۔
یاددہانی کی ضرورت نہیں کہ کوتاہ فکر اور بے قوف لوگوں کی کو شس ہو تی ہے کہ ہر چیز کو حسی قالب میں دیکھیں ۔بنیا دی طور پر ان کی فکر محسوسات کی دنیاسے آگے قدم نہیں رکھتی اس لئے ان دیکھے خداکی پرستش ان کے لیے مشکل ہے ۔ان کی خواہش ہو تی ہے کہ اپنے خدا کو پیکر محسوس میں دیکھیں ۔یہ جہالت ونادانی جب خدا پرستی کی سر شت سے مل جا تی ہے تو بت پرستی اور خدائے حس کی شکل میں رونما ہو تی ہے ۔
دوسری طرف کہا جا تا ہے کہ گذشتہ قومیں اور بزرگان دین کے لئے جو خاص احترام رکھتی ہیں اس کے پیش نظر ان کی وفات کے بعد ان کے مجسمے یا دگار کے طور پر بنالیتی تھیں ۔کوتا ہ فکر اور کم فکر لوگوں میں جوجعلی فضائل اور غلو کی روح ہوتی ہے وہ انہیںجوش دلاتی اور مجبور کرتی کہ ان مجسموں کے لئے بلند مرتبوں اور معجزوں کے قائل ہو جائیں اور یوں انہیں سر حد الوہیت تک پہنچادیں ۔یہ اندازبت پرستی کا دوسراسر چشمہ ہے۔
بت پرستی کا ایک سرچشمہ یہ بھی تھا کہ موجودات کا ایک سلسلہ جوانسانی زندگی کے لئے سود مند تھا مثلا چاند ،سورج ،آگ اور پا نی وغیرہ ۔لوگ ان کے سامنے سر تعظیم خم کردیتے اور اپنی فکر کے افق کو وسیع نہ کرتے کہ جس کے نتیجے میںوہاں سے ماوراء سبب ِاول اورخالق عالم کو دیکھ پاتے ۔احترام اور تعظیم کے اس انداز نے رفتہ رفتہ بت پرستی کی شکل اختیار کرلی ۔
بت پرستی کی تمام اشکال کی جڑاور بنیاد ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے فکری پستی اورجہل ونادانی نیز خدا جوئی اور شناسی کے لئے رہبری کا صحیح نہ ہو نا مگر جب انبیا ء کی تعلیم وتربیت اور رہنمائی مو جو د تھی تو پھر یہ عذرقابل گرفت ضرور ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسان اپنی سرشت اور خلقت کے تقاضے کی بناء پر طبیعات سے ماوراء ایک قوت کی طرف متوجہ تھا ،نظام ہستی کے واضح استدلالات اس سرشت کی تائید کرتے تھے اور ایک ایسے مبداء کی نشان دہی کرتے ہیں کہ جو عالم وقادر ہے اورانسان سرشت اور عقل کے ان دونوں طریقو ں سے کم و بیش وہمیشہ ہی اس مبداء ہستی سے آشنا رہا ہے ۔
لیکن بھو ک کا احساس جو اس بچہ میں موجود ہے اگر بر محل اس کی رہبر ی نہ کی جا ئے اور اسے صحیح غذا نہ دی جائے تو پھر وہ کیچڑ اور اس جیسی چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھا نے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ ایسی چیزوں کا عادی ہو جاتا ہے اور اپنی صحت وسلامتی کو کھو بیٹھتا ہے اور اسی طرح انسان کی عقل وفطرت کو ملحوظ رکھتے ہو ئے بروقت رہنمائی میسر نہ آئے تو وہ مصنو عی خدا اور طرح طرح کے بتوں کا رخ کرلیتا ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کربیٹھتا ہے اور ان کے لئے خدائی ڈ صفات کاقائل ہو جا تا ہے ۔
یاددہانی کی ضرورت نہیں کہ کوتاہ فکر اور بے قوف لوگوں کی کو شس ہو تی ہے کہ ہر چیز کو حسی قالب میں دیکھیں ۔بنیا دی طور پر ان کی فکر محسوسات کی دنیاسے آگے قدم نہیں رکھتی اس لئے ان دیکھے خداکی پرستش ان کے لیے مشکل ہے ۔ان کی خواہش ہو تی ہے کہ اپنے خدا کو پیکر محسوس میں دیکھیں ۔یہ جہالت ونادانی جب خدا پرستی کی سر شت سے مل جا تی ہے تو بت پرستی اور خدائے حس کی شکل میں رونما ہو تی ہے ۔
دوسری طرف کہا جا تا ہے کہ گذشتہ قومیں اور بزرگان دین کے لئے جو خاص احترام رکھتی ہیں اس کے پیش نظر ان کی وفات کے بعد ان کے مجسمے یا دگار کے طور پر بنالیتی تھیں ۔کوتا ہ فکر اور کم فکر لوگوں میں جوجعلی فضائل اور غلو کی روح ہوتی ہے وہ انہیںجوش دلاتی اور مجبور کرتی کہ ان مجسموں کے لئے بلند مرتبوں اور معجزوں کے قائل ہو جائیں اور یوں انہیں سر حد الوہیت تک پہنچادیں ۔یہ اندازبت پرستی کا دوسراسر چشمہ ہے۔
بت پرستی کا ایک سرچشمہ یہ بھی تھا کہ موجودات کا ایک سلسلہ جوانسانی زندگی کے لئے سود مند تھا مثلا چاند ،سورج ،آگ اور پا نی وغیرہ ۔لوگ ان کے سامنے سر تعظیم خم کردیتے اور اپنی فکر کے افق کو وسیع نہ کرتے کہ جس کے نتیجے میںوہاں سے ماوراء سبب ِاول اورخالق عالم کو دیکھ پاتے ۔احترام اور تعظیم کے اس انداز نے رفتہ رفتہ بت پرستی کی شکل اختیار کرلی ۔
بت پرستی کی تمام اشکال کی جڑاور بنیاد ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے فکری پستی اورجہل ونادانی نیز خدا جوئی اور شناسی کے لئے رہبری کا صحیح نہ ہو نا مگر جب انبیا ء کی تعلیم وتربیت اور رہنمائی مو جو د تھی تو پھر یہ عذرقابل گرفت ضرور ہے۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.