مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس سوال کا جواب سوره «اعراف»کی آیت ۱۳۸ میں ذکر ہوا ہے اس آیت میں اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا واقعہ بیان کیا ہے (اِنَّکُمْ قُومٌ تَجْهَلُونَ)اس آیت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ بت پرستی کی بنیاد و سر چشمہ جہالت ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) فرعون کے جھگڑے سے نکل چکے تو ایک اور داخلی مصیبت شروع ہوگئی جو بنی اسرائیل کے جاہل ، سرکش اور ضدی افراد کی وجہ سے پیش آئی، جیسا کہ آگے معلوم ہوگا حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے لئے یہ داخلی کشمکش، فرعون اور فرعونیوں کے ساتھ جنگ کرنے سے بدرجہ سخت اور سنگین تر تھی اور ہر داخلی کشمکش کا یہی حال ہوا کرتا ہے ۔
پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: ہم نے بنی اسرائیل کو دریا (نیل) کے اس پار لگادیا (وَجَاوَزْنَا بِبَنِی إِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ ) ۔
لیکن "انھوں نے راستے میں ایک قوم کو دیکھا جو اپنے بتوں کے گرد خضوع اور انکساری کے ساتھ اکٹھا تھے“ (فَاٴَتَوْا عَلیٰ قَوْمٍ یَعْکُفُونَ عَلیٰ اٴَصْنَامٍ لَھُمْ) ۔
”عاکف“ "عکوف“ سے ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی طرف احترام کے ساتھ توجہ کرنا ۔
امت موسیٰ (علیه السلام) کے جاہل افراد یہ منظر دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے پاس آن کر "وہ کہنے لگے اے موسیٰ ! ہمارے واسطے بھی بالکل ویسا ہے معبود بنا دو جیسا معبود ان لوگوں کا ہے“ ( قَالُوا یَامُوسیٰ اجْعَل لَنَا إِلَھًا َمَا لَھُمْ آلِھَة) ۔
حضرت موسیٰ (علیه السلام)ان کی اس جاہلانہ اور احمقانہ فرمائش سے بہت ناراج ہوئے، آپ نے ان لوگون سے کہا: تم لوگ جاہل اور بے خبر قوم ہو ( قَالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُونَ ) ۔۱
واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) فرعون کے جھگڑے سے نکل چکے تو ایک اور داخلی مصیبت شروع ہوگئی جو بنی اسرائیل کے جاہل ، سرکش اور ضدی افراد کی وجہ سے پیش آئی، جیسا کہ آگے معلوم ہوگا حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے لئے یہ داخلی کشمکش، فرعون اور فرعونیوں کے ساتھ جنگ کرنے سے بدرجہ سخت اور سنگین تر تھی اور ہر داخلی کشمکش کا یہی حال ہوا کرتا ہے ۔
پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: ہم نے بنی اسرائیل کو دریا (نیل) کے اس پار لگادیا (وَجَاوَزْنَا بِبَنِی إِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ ) ۔
لیکن "انھوں نے راستے میں ایک قوم کو دیکھا جو اپنے بتوں کے گرد خضوع اور انکساری کے ساتھ اکٹھا تھے“ (فَاٴَتَوْا عَلیٰ قَوْمٍ یَعْکُفُونَ عَلیٰ اٴَصْنَامٍ لَھُمْ) ۔
”عاکف“ "عکوف“ سے ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی طرف احترام کے ساتھ توجہ کرنا ۔
امت موسیٰ (علیه السلام) کے جاہل افراد یہ منظر دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے پاس آن کر "وہ کہنے لگے اے موسیٰ ! ہمارے واسطے بھی بالکل ویسا ہے معبود بنا دو جیسا معبود ان لوگوں کا ہے“ ( قَالُوا یَامُوسیٰ اجْعَل لَنَا إِلَھًا َمَا لَھُمْ آلِھَة) ۔
حضرت موسیٰ (علیه السلام)ان کی اس جاہلانہ اور احمقانہ فرمائش سے بہت ناراج ہوئے، آپ نے ان لوگون سے کہا: تم لوگ جاہل اور بے خبر قوم ہو ( قَالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُونَ ) ۔۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.