مختصر جواب:
مفصل جواب:
پہلے عالم کبیر(آسمان وزمین)اور ان کے نظاموں کی پیدائش کے طرےق سے اور اس کے بعد ”عالم منعیر یعنی انسان“کی آفرینش کے راستہ سے لوگوںکو اصل توحید کی طرف متوجہ کیا گیا،پہلے کہتا ہے:حمد ستائش اس خدا کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا(الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْض)
وہ خدا جو نور وظلمت دونوں کا مبدا ہے، دو خداؤں کی پرستش کا عقیدہ رکھنے والوں نظرےے کے بر خلاف وہی تنہا تمام چیزوں کے پیدا کرنے والا ہے ۔ (وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ) لیکن مشرکین وکفار بجائے اس کے کہ اس نظام واحد سے توحید کا سبق حاصل کریں اپنے پروردگار کے لئے شریک وشبیہ قرار دیتے ہیں (ثُمَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُونَ)
اس سوال کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ظلمت ہمیشہ ظلمت مطلقہ کے معنی میں نہیں ہوتی، بلکہ زیادہ تر فراوان وقوی نور کے مقابل میں بہت کم اور ضعیف نور کے لئے بھی ظلمت کا لفظ بولا جاتا ہے، مثلا ہم سب کہتے ہیں”تاریکی رات “ حالانکہ کہ یہ بات مسلم ہے کہ رات میں ظلمت مطلقہ نہیں ہوتی، بلکہ رات کی تاریکی ہمیشہ کم رنگ ستاروں کے نور کی آمیزش رکھتی ہے یا دوسرے منابع نور سے ملی ہوئی ہوتی ہے اس بنا پر آیت کا معنی و مفہوم یہ ہوگا کہ خدا نے تمہارے لئے دن کی روشنی اور رات کی تاریکی قراردی ہے کہ جن میں سے ایک کا نور بہت قوی ہے اور دوسرا کا نور بہت کمزور ہے اور یہ بات واضح وبدیھی ہے کہ ا س قسم کی ظلمت مخلوق خدا میں سے ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تو صحیح ہے کہ ظلمت مطلقہ ایک ایسا امر ہے جسے عدم کہا جا تا ہے لیکن کوئی بھی امر معدوم جب مخصوص حالات میں واقع ہوتو حتما اور یقینا اس عدم کا سر چشمہ ایک ایک وجودی بھی ہوتا ہے، یعنی وہ چیز جو ظلمت مطلقہ کو مخصوص حالت میں معین اہداف ومقاصد کے لئے وجود میں لاتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ وسائل وجودی سے استفادہ کرے، مثلا ہم چاہتے ہیں کہ ایک مخصوص وقت کے لئے کمرے کو ایک عکس ظاہر کرنے کے لئے تاریک کریں، تو اس کے لئے ہم مجبور ہیں کہ کسی تدبیر سے نور کو روکیں تاکہ اس معین وقت میں تاریکی پیدا ہوجائے تو ایسی ظلمت مخلوق ہے(مخلوق بالتبع)اور اصطلاحی طور پر اگر چہ عدم متعلق مخلوق نہیں لیکن عدم خاص وجود ہی ایک حصہ ہے اور وہ مخلوق ہے ۔
نور رمز وحدت ہے اور ظلمت رمز پراکندگی
ایک دوسرا نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہئے یہ ہے کہ یہ آیات قرآن میں نور صیغہ مفرد کے ساتھ ہے اور ظلمت جمع کی صورت میں (ظلمات ) ۔۱
وہ خدا جو نور وظلمت دونوں کا مبدا ہے، دو خداؤں کی پرستش کا عقیدہ رکھنے والوں نظرےے کے بر خلاف وہی تنہا تمام چیزوں کے پیدا کرنے والا ہے ۔ (وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ) لیکن مشرکین وکفار بجائے اس کے کہ اس نظام واحد سے توحید کا سبق حاصل کریں اپنے پروردگار کے لئے شریک وشبیہ قرار دیتے ہیں (ثُمَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُونَ)
اس سوال کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ظلمت ہمیشہ ظلمت مطلقہ کے معنی میں نہیں ہوتی، بلکہ زیادہ تر فراوان وقوی نور کے مقابل میں بہت کم اور ضعیف نور کے لئے بھی ظلمت کا لفظ بولا جاتا ہے، مثلا ہم سب کہتے ہیں”تاریکی رات “ حالانکہ کہ یہ بات مسلم ہے کہ رات میں ظلمت مطلقہ نہیں ہوتی، بلکہ رات کی تاریکی ہمیشہ کم رنگ ستاروں کے نور کی آمیزش رکھتی ہے یا دوسرے منابع نور سے ملی ہوئی ہوتی ہے اس بنا پر آیت کا معنی و مفہوم یہ ہوگا کہ خدا نے تمہارے لئے دن کی روشنی اور رات کی تاریکی قراردی ہے کہ جن میں سے ایک کا نور بہت قوی ہے اور دوسرا کا نور بہت کمزور ہے اور یہ بات واضح وبدیھی ہے کہ ا س قسم کی ظلمت مخلوق خدا میں سے ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تو صحیح ہے کہ ظلمت مطلقہ ایک ایسا امر ہے جسے عدم کہا جا تا ہے لیکن کوئی بھی امر معدوم جب مخصوص حالات میں واقع ہوتو حتما اور یقینا اس عدم کا سر چشمہ ایک ایک وجودی بھی ہوتا ہے، یعنی وہ چیز جو ظلمت مطلقہ کو مخصوص حالت میں معین اہداف ومقاصد کے لئے وجود میں لاتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ وسائل وجودی سے استفادہ کرے، مثلا ہم چاہتے ہیں کہ ایک مخصوص وقت کے لئے کمرے کو ایک عکس ظاہر کرنے کے لئے تاریک کریں، تو اس کے لئے ہم مجبور ہیں کہ کسی تدبیر سے نور کو روکیں تاکہ اس معین وقت میں تاریکی پیدا ہوجائے تو ایسی ظلمت مخلوق ہے(مخلوق بالتبع)اور اصطلاحی طور پر اگر چہ عدم متعلق مخلوق نہیں لیکن عدم خاص وجود ہی ایک حصہ ہے اور وہ مخلوق ہے ۔
نور رمز وحدت ہے اور ظلمت رمز پراکندگی
ایک دوسرا نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہئے یہ ہے کہ یہ آیات قرآن میں نور صیغہ مفرد کے ساتھ ہے اور ظلمت جمع کی صورت میں (ظلمات ) ۔۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.