مختصر جواب:
مفصل جواب:
امام حسین (علیہ السلام) کی مجالس عزاء ، روحی تبدیلی اور تربیت و تزکیہ نفس کی مجالس ہیں ۔ ان مجالس میں جو لوگ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ کرکے آپ کو اپنے لئے نمونہ عمل بناتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے اعمال و کردار کو امام حسین (علیہ السلام) کی سیرت کے مطابق ا نجام دیتے ہیں ۔
ان مجالس کی تاثیر اس قدر ہے کہ بہت سے افراد میں ان مجالس کے ذریعہ تبدیلی واقع ہوگئی اور ا نہوں نے گناہ کرنے چھوڑ دئیے اور کبھی کبھی گمراہ اشخاص ان مجالس میں شرکت کرنے کے بعد آگاہی حاصل کرتے ہیں اور نجات کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں ۔
یہ مجلسیں انسان کو عزت، آزادگی، ایثار، فداکاری ، تقوی اور اخلاق کا درس دیتی ہیں ۔ یہ مجلسیں حق طلب، عدالت کو پھیلانے اور شجاع انسانوں کی پرورش کا گہوارہ ہیں ۔
اس کے علاوہ پوری تاریخ میں یہ مجلسیں عام انسانوں کے لئے سبق حاصل کرنے کی کلاسوں کے مانند ہیں اور یہ مجلسیں ان کو اسلامی تعلیمات، دینی حقایق، تاریخ، رجال، احکام اور دیگر موضوعات سے آشنا کراتی ہیں اور یہ خود سازی، تہذیب نفس اور تربیت اخلاق کا موثر ترین مرکز ہیں ۔
اس سلسلہ میں جرمنی ماربین کہتا ہے :
جب تک مسلمانوں کے درمیان یہ طور طریقہ اور عادت (مجالس عزاداری کو قائم کرنا) باقی ہے اس وقت تک یہ ذلت کو قبول نہیں کرسکتے .... حقیقت میں شیعہ اس کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو جوانمردی اور شجاعت کی تعلیم دیتے ہیں (١) ۔
ائمہ اطہار نے اس دروازہ کو کھولنے کے بعد لوگوں کو ان مجالس و محافل میں شرکت کرنے کی تشویق دلا کر حقیقت میں سب لوگوں کو اس حسینی یونیورسٹی میں تربیت حاصل کرنے کی دعوت دی ہے ۔
ایران ، عراق می آٹھ سالہ جنگ کے دوران خاص طور سے جب رات میں حملہ کرتے تھے تو ایرانی فوجیوں کے درمیان فداکاری ، ایثار اور شہادت پر فائز ہونے کا جو جوش و ولولہ ہوتا تھا وہ ان مجالس حسینی کی عمیق تاثیر پر بہترین گواہ ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اگر ان مجالس کو ""نمونہ عمل اور پیروی کی مجالس"" سے تعبیر کیا جائے تو کوئی غلط کام نہیں ہے ۔
مرحوم فیض کاشانی اپنی کتاب ""محجة البیضائ"" میں پیغمبر اکرم کی اس حدیث ""عند ذکرالصالحین تنزل الرحمة"" ، صالحین کو یاد کرتے وقت خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہے )کی توضیح میں لکھتے ہیں :کیونکہ صالحین کا تذکرہ اور ان کی اخلاقی صلاحیتوں کو بیان کرنا اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ انسان ان کو اپنے لئے نمونہ عمل بنائے اور ان کی تاثیر کو قبول کرتے ہوئے ان کی اقتداء کرے اور پروردگار عالم کی رحمت کو حاصل کرنے کے لئے زمینہ فراہم کرے (٢) ۔
ثقة الاسلام کلینی اور شیخ الطایفہ شیخ طوسی امام صادق کی معتبر حدیث میں روایت کرتے ہیں:
""قال : قال لی ابی:یا جعفر اوقف من مالی کذا و کذا النوادب یندبنی عشر سنین بمنی ایام منی""۔ میرے والد نے مجھ سے فرمایا :ائے جعفر! میرے مال میں سے کچھ حصہ (میرے مرنے کے بعد)ایام حج کے دوران منی میں میرے لئے عزاداری قائم کرنے میں خرچ کرنا(٣) ۔
صاحب جواہر ""کتاب طہارت""میں امام باقر کی اس وصیت کا فلسفہ اور حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
چونکہ ائمہ علیہم السلام کی عزاداری میں مجالس قائم کرنے سے ان کے اخلاقی فضائل ظاہر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ ان بزرگوں کی پیروی اور اقتداء کرتے ہیں(٤) لہذا ان کے نام اور ان کی یاد کو باقی رکھنا ایک اچھا اور مطلوب عمل ہے ۔
ان مجالس کی تاثیر اس قدر ہے کہ بہت سے افراد میں ان مجالس کے ذریعہ تبدیلی واقع ہوگئی اور ا نہوں نے گناہ کرنے چھوڑ دئیے اور کبھی کبھی گمراہ اشخاص ان مجالس میں شرکت کرنے کے بعد آگاہی حاصل کرتے ہیں اور نجات کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں ۔
یہ مجلسیں انسان کو عزت، آزادگی، ایثار، فداکاری ، تقوی اور اخلاق کا درس دیتی ہیں ۔ یہ مجلسیں حق طلب، عدالت کو پھیلانے اور شجاع انسانوں کی پرورش کا گہوارہ ہیں ۔
اس کے علاوہ پوری تاریخ میں یہ مجلسیں عام انسانوں کے لئے سبق حاصل کرنے کی کلاسوں کے مانند ہیں اور یہ مجلسیں ان کو اسلامی تعلیمات، دینی حقایق، تاریخ، رجال، احکام اور دیگر موضوعات سے آشنا کراتی ہیں اور یہ خود سازی، تہذیب نفس اور تربیت اخلاق کا موثر ترین مرکز ہیں ۔
اس سلسلہ میں جرمنی ماربین کہتا ہے :
جب تک مسلمانوں کے درمیان یہ طور طریقہ اور عادت (مجالس عزاداری کو قائم کرنا) باقی ہے اس وقت تک یہ ذلت کو قبول نہیں کرسکتے .... حقیقت میں شیعہ اس کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو جوانمردی اور شجاعت کی تعلیم دیتے ہیں (١) ۔
ائمہ اطہار نے اس دروازہ کو کھولنے کے بعد لوگوں کو ان مجالس و محافل میں شرکت کرنے کی تشویق دلا کر حقیقت میں سب لوگوں کو اس حسینی یونیورسٹی میں تربیت حاصل کرنے کی دعوت دی ہے ۔
ایران ، عراق می آٹھ سالہ جنگ کے دوران خاص طور سے جب رات میں حملہ کرتے تھے تو ایرانی فوجیوں کے درمیان فداکاری ، ایثار اور شہادت پر فائز ہونے کا جو جوش و ولولہ ہوتا تھا وہ ان مجالس حسینی کی عمیق تاثیر پر بہترین گواہ ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اگر ان مجالس کو ""نمونہ عمل اور پیروی کی مجالس"" سے تعبیر کیا جائے تو کوئی غلط کام نہیں ہے ۔
مرحوم فیض کاشانی اپنی کتاب ""محجة البیضائ"" میں پیغمبر اکرم کی اس حدیث ""عند ذکرالصالحین تنزل الرحمة"" ، صالحین کو یاد کرتے وقت خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہے )کی توضیح میں لکھتے ہیں :کیونکہ صالحین کا تذکرہ اور ان کی اخلاقی صلاحیتوں کو بیان کرنا اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ انسان ان کو اپنے لئے نمونہ عمل بنائے اور ان کی تاثیر کو قبول کرتے ہوئے ان کی اقتداء کرے اور پروردگار عالم کی رحمت کو حاصل کرنے کے لئے زمینہ فراہم کرے (٢) ۔
ثقة الاسلام کلینی اور شیخ الطایفہ شیخ طوسی امام صادق کی معتبر حدیث میں روایت کرتے ہیں:
""قال : قال لی ابی:یا جعفر اوقف من مالی کذا و کذا النوادب یندبنی عشر سنین بمنی ایام منی""۔ میرے والد نے مجھ سے فرمایا :ائے جعفر! میرے مال میں سے کچھ حصہ (میرے مرنے کے بعد)ایام حج کے دوران منی میں میرے لئے عزاداری قائم کرنے میں خرچ کرنا(٣) ۔
صاحب جواہر ""کتاب طہارت""میں امام باقر کی اس وصیت کا فلسفہ اور حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
چونکہ ائمہ علیہم السلام کی عزاداری میں مجالس قائم کرنے سے ان کے اخلاقی فضائل ظاہر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ ان بزرگوں کی پیروی اور اقتداء کرتے ہیں(٤) لہذا ان کے نام اور ان کی یاد کو باقی رکھنا ایک اچھا اور مطلوب عمل ہے ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.