مختصر جواب:
مفصل جواب:
بنیادی طور پر اشخاص کی موت پر غم منانا ایک طرح سے ان کی تعظیم و تکریم اوران کی شخصیت کی رعایت کرنا ہے، پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :
""میت لا بواکی علیہ، لا اعزاز لہ""۔ کسی میت پر اگر کوئی رونے والا نہ ہوتو اس میت کی کوئی عزت نہیں(١) ۔
خاص طور سے مردان الہی کی عزاداری ، شعائر الہی کی تعظیم کا بہترین مصداق ہے اور یہ ان کی مجاہدت اور سعی وکوشش کی راہ ورسم کے عقیدہ کی عزت و تکریم شمار ہوتی ہے اسی وجہ سے رسول خدا جب جنگ احد سے واپس آرہے تھے تو آپ نے دیکھا کہ قبیلہ اشھل اور قبیلہ بنی ظفر اپنے شہداء کی لاشوں پر گریہ کررہے ہیں لیکن ان کے چچا حضرت حمزہ پر کوئی گریہ نہیں کررہا ہے تو آپ نے فرمایا:
""لکن حمزة لا بواکی لہ الیوم""۔ لیکن آج حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں ہے(٢) ۔
مدینہ کی عورتیں یہ بات سن حضرت حمزہ کے گھر جمع ہوگئیں اور انہوں نے وہاں عزاداری کی اور اس طرح حضرت حمزہ کی عظیم شخصیت کا احترام باقی رہا ۔
جب جعفر طیار کی شہادت کی خبر جنگ موتہ سے مدینہ پہنچی تو پہلے پیغمبر اکرم تسلیت کہنے کیلئے جعفر کے گھر گئے پھر حضرت فاطمہ زہرا کے گھر آئے اور اس بزرک خاتون کو گریہ اور سوگواری کی حالت میں دیکھا تو فرمایا:
""علی مثل جعفر فلتبک البواکی""۔ واقعا جعفر جیسی شخصیت پر گریہ کرنے والوں کو گریہ کرنا چاہئے(١) ۔
قرآن کریم، قوم موسی کے ایک گروہ کے متعلق جنہوں نے تباہی اور فساد کاراستہ اختیار کر لیاتھا اور آخر کار حضرت موسی کی بد دعا سے وہ ہلاک ہوگئے تھے، آپ نے ان کو بالکل گریہ کے لایق نہیں جانا اور فرمایا:
""فما بکت علیھم السماء والارض وما کانوا منظرین""۔ ان لوگوں پر نہ اہل آسمان روئے اور نہ اہل زمین!(٢) ۔
اس تعبیر سے اچھی طرح معلوم ہوجاتاہے کہ کسی کا گریہ نہ کرنا ایک طرح کی حقارت ہے ۔
اس وجہ سے ائمہ اطہار کی سفارشات میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: لوگوں کے درمیان اس طرح خیر وبرکت کا سبب بنے رہو تاکہ وہ تمہارے مرنے پر روئیں اور تمہارا احترام کریں!
امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
خالطوا الناس مخالطة ان متم معھا بکوا علیکم وان عشتم حنوا الیکم۔ لوگوں کے ساتھ اس طرح زندگی گذارو کہ جب تم مر جاؤ تو وہ تمہار ی موت پر آنسوں بہائیں اور اگر زندہ باقی رہو تو وہ تم سے محبت کریں(٣) ۔
اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام (جن کی شخصیت ممتاز اور بے نظیر تھی اور جو خود خاندان عصمت وطہارت سے تعلق رکھتے تھے) کے لئے عزاداری قائم کرناان کے مقام کی تعظیم و تکریم کے علاوہ شعائر الہی کی تعظیم کا بہترین مصداق ہے :
""ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب "" (٤) ۔ اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی ۔
اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ صفا و مروہ صرف ایک جگہ کا نام ہے لیکن کیونکہ وہاں پر خدا کا ذکر اور خدا کی یاد تازہ ہوتی ہے لہذا ان کو شعائر الہی شمار کیا گیا ہے ۔
""ان الصفا والمروة من شعائر اللہ "" (٥) ۔ صفا اور مروہ خداوندعالم کے شعائر (نشانیاں) ہیں
یقینا امام حسین (علیہ السلام) نے پنی تمام ہستی کا خداوند عالم سے معاملہ کرلیا اور اپنے تمام اہل بیت (علیہم السلام) اور بچوں کے ساتھ عشق کی قربان گاہ میں قدم رکھا اور بہت ہی خلوص کے ساتھ سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کردیا ، لہذا یہ عظیم ترین شعائر ا لہی ہے اور آپ کے لئے مجالس عزاء قائم کرنا بزرگ ترین شعائر الہی کی تعظیم کرنا ہے (٦) ۔
""میت لا بواکی علیہ، لا اعزاز لہ""۔ کسی میت پر اگر کوئی رونے والا نہ ہوتو اس میت کی کوئی عزت نہیں(١) ۔
خاص طور سے مردان الہی کی عزاداری ، شعائر الہی کی تعظیم کا بہترین مصداق ہے اور یہ ان کی مجاہدت اور سعی وکوشش کی راہ ورسم کے عقیدہ کی عزت و تکریم شمار ہوتی ہے اسی وجہ سے رسول خدا جب جنگ احد سے واپس آرہے تھے تو آپ نے دیکھا کہ قبیلہ اشھل اور قبیلہ بنی ظفر اپنے شہداء کی لاشوں پر گریہ کررہے ہیں لیکن ان کے چچا حضرت حمزہ پر کوئی گریہ نہیں کررہا ہے تو آپ نے فرمایا:
""لکن حمزة لا بواکی لہ الیوم""۔ لیکن آج حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں ہے(٢) ۔
مدینہ کی عورتیں یہ بات سن حضرت حمزہ کے گھر جمع ہوگئیں اور انہوں نے وہاں عزاداری کی اور اس طرح حضرت حمزہ کی عظیم شخصیت کا احترام باقی رہا ۔
جب جعفر طیار کی شہادت کی خبر جنگ موتہ سے مدینہ پہنچی تو پہلے پیغمبر اکرم تسلیت کہنے کیلئے جعفر کے گھر گئے پھر حضرت فاطمہ زہرا کے گھر آئے اور اس بزرک خاتون کو گریہ اور سوگواری کی حالت میں دیکھا تو فرمایا:
""علی مثل جعفر فلتبک البواکی""۔ واقعا جعفر جیسی شخصیت پر گریہ کرنے والوں کو گریہ کرنا چاہئے(١) ۔
قرآن کریم، قوم موسی کے ایک گروہ کے متعلق جنہوں نے تباہی اور فساد کاراستہ اختیار کر لیاتھا اور آخر کار حضرت موسی کی بد دعا سے وہ ہلاک ہوگئے تھے، آپ نے ان کو بالکل گریہ کے لایق نہیں جانا اور فرمایا:
""فما بکت علیھم السماء والارض وما کانوا منظرین""۔ ان لوگوں پر نہ اہل آسمان روئے اور نہ اہل زمین!(٢) ۔
اس تعبیر سے اچھی طرح معلوم ہوجاتاہے کہ کسی کا گریہ نہ کرنا ایک طرح کی حقارت ہے ۔
اس وجہ سے ائمہ اطہار کی سفارشات میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: لوگوں کے درمیان اس طرح خیر وبرکت کا سبب بنے رہو تاکہ وہ تمہارے مرنے پر روئیں اور تمہارا احترام کریں!
امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
خالطوا الناس مخالطة ان متم معھا بکوا علیکم وان عشتم حنوا الیکم۔ لوگوں کے ساتھ اس طرح زندگی گذارو کہ جب تم مر جاؤ تو وہ تمہار ی موت پر آنسوں بہائیں اور اگر زندہ باقی رہو تو وہ تم سے محبت کریں(٣) ۔
اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام (جن کی شخصیت ممتاز اور بے نظیر تھی اور جو خود خاندان عصمت وطہارت سے تعلق رکھتے تھے) کے لئے عزاداری قائم کرناان کے مقام کی تعظیم و تکریم کے علاوہ شعائر الہی کی تعظیم کا بہترین مصداق ہے :
""ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب "" (٤) ۔ اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی ۔
اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ صفا و مروہ صرف ایک جگہ کا نام ہے لیکن کیونکہ وہاں پر خدا کا ذکر اور خدا کی یاد تازہ ہوتی ہے لہذا ان کو شعائر الہی شمار کیا گیا ہے ۔
""ان الصفا والمروة من شعائر اللہ "" (٥) ۔ صفا اور مروہ خداوندعالم کے شعائر (نشانیاں) ہیں
یقینا امام حسین (علیہ السلام) نے پنی تمام ہستی کا خداوند عالم سے معاملہ کرلیا اور اپنے تمام اہل بیت (علیہم السلام) اور بچوں کے ساتھ عشق کی قربان گاہ میں قدم رکھا اور بہت ہی خلوص کے ساتھ سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کردیا ، لہذا یہ عظیم ترین شعائر ا لہی ہے اور آپ کے لئے مجالس عزاء قائم کرنا بزرگ ترین شعائر الہی کی تعظیم کرنا ہے (٦) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.