مختصر جواب:
مفصل جواب:
کربلا کے خونی واقعہ کے رازوں میں سے ایک راز بنی امیہ کا انتقام تھا جو انہوں نے رسول خدا کے زمانے میں اپنی شکستوں کے بدلے میں لیا ۔
اسلام کے ظاہر ہونے کے بعد مشرک قریش مخالفت کے لئے کھڑے ہوگئے اور مختلف قسم کی اذیتیں، فشار اور وعدہ شکنی کرنے لگے، اس دوران بنی امیہ کے بزرگ خصوصا ابوسفیان نے رسول اسلام کی مخالفت کرنے میں ذرابرابر کمی نہیں رکھی ۔
رسول خدا کی ہجرت کے بعد بھی یہ لوگ رسول خداکی مخالفت کرتے رہے یہاں تک کہ ہجرت کے دوسرے سال ان لوگوں نے بدر کی جنگ میں مسلمانوں سے شکست کھائی اس جنگ میں قریش کے ستر افراد ہلاک ہوئے(١)جن میں کچھ لوگ معاویہ کے رشتہ دار تھے جیسے عتبہ، معاویہ کانانا(ہند کاباپ)، ولیدبن عتبہ، معاویہ کاماموں اور حنظلہ معاویہ کابھائی(٢) ۔
اگر چہ تیسری ہجری میں جنگ احد کے درمیان حضرت حمزہ اور دوسرے مسلمان شہیدہوئے اور اس جنگ میں مشرکوں کی رہبری ابوسفیان کے ہاتھ میں تھی لیکن بنی امیہ کے دل پھر بھی بدر کا کینہ بھرا ہوا تھا اور یہ لوگ اسلام سے انتقام لینے کے در پئے تھے ۔
ابوسفیان جس نے رسول کے خلاف دوسری جنگوں کی بھی رہبری کی تھی اور فتح مکہ تک ایمان نہیں لایا تھا اور جب اسلام کا عظیم لشکر فتح مکہ کے لئے(آٹھویں ہجری میں) مکہ کی طرف بڑھا تو یہ ان کے لشکر کی تاب نہ لا سکا اور مسلمانوں کے مقابلے میں تسلیم ہو کر ظاہرا ایمان لے آیا اور اس کے ساتھ اس کا بیٹامعاویہ بھی (ظاہری طور پر)مسلمان ہوگیا، لیکن واضح قرائن سے پتہ چلتاہے کہ ان کا اسلام واقعی نہیں تھا ۔
امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں کئی جگہ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ابوسفیان، معاویہ اور ان کی اولاد دل سے اسلام نہیں لائے تھے، آپ مکتوب ١٧ میں معاویہ کو خطاب کرکے فرماتے ہیں:
""وکنتم ممن دخل فی الدین: اما رغبة و اما رھبة""۔ تم ان لوگوں میں سے تھے جو اس دین میں داخل ہوئے لیکن یہ کام یا دنیاکے لئے تھا یا ڈر کی وجہ سے تھا ۔
اسی طرح مکتوب١٦ میں فرماتے ہیں : ""فوالذی فلق الحبة و برا النسمة ما اسلموا ولکن استسلموا و اسروا الکفر، فلما وجدوا اعوانا علیہ اظھرواہ ""۔
قسم اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اور جاندار چیزوں کو پیدا کیا ہے کہ یہ لوگ اسلام نہیں لائے ہیں بلکہ حالات کے سامنے سپر انداختہ ہوگئے ہیں اور اپنے کفر کو چھپائے ہوئے ہیں او رجیسے ہی مددگار مل گئے ویسے ہی اظہار کردیا ۔
بے شک مشرکین کو شکست دینے میں حضرت علی علیہ السلام نے اساسی کردار ادا کیا اور دوسری جنگوں میں بھی آپ نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور یہی وجہ ہوئی کہ مشرکین قریش کے دل میں آپ کی طرف سے بہت عظیم کینہ پیدا ہوگیا ۔
ان واقعات میں بنی امیہ کے افرادکھل کر اسلام کے خلاف سعی و کوشش میں لگے ہوئے تھے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ہمت، حضرت علی (علیہ السلام) اور تمام مسلمانوں کی شجاعت سے ان کی یہ کوشش ناکام ہوگئی اوران کے تمام خاندان والے مختلف جنگوں میں حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے لہذا یہ لوگ بنی ہاشم سے انتقام لینے کے ایسے موقع کا انتظار کررہے تھے ۔
اسلام کے کامیاب ہونے کے بعد رسول اللہ کے زمانے میں ان لوگوں میں انتقام کی ہمت وجرات نہیں تھی لیکن جب حکومت ان کے ہاتھ میں آگئی تو انہوں نے اپنے کینہ کو آشکار کردیا ۔
اسلام کے ظاہر ہونے کے بعد مشرک قریش مخالفت کے لئے کھڑے ہوگئے اور مختلف قسم کی اذیتیں، فشار اور وعدہ شکنی کرنے لگے، اس دوران بنی امیہ کے بزرگ خصوصا ابوسفیان نے رسول اسلام کی مخالفت کرنے میں ذرابرابر کمی نہیں رکھی ۔
رسول خدا کی ہجرت کے بعد بھی یہ لوگ رسول خداکی مخالفت کرتے رہے یہاں تک کہ ہجرت کے دوسرے سال ان لوگوں نے بدر کی جنگ میں مسلمانوں سے شکست کھائی اس جنگ میں قریش کے ستر افراد ہلاک ہوئے(١)جن میں کچھ لوگ معاویہ کے رشتہ دار تھے جیسے عتبہ، معاویہ کانانا(ہند کاباپ)، ولیدبن عتبہ، معاویہ کاماموں اور حنظلہ معاویہ کابھائی(٢) ۔
اگر چہ تیسری ہجری میں جنگ احد کے درمیان حضرت حمزہ اور دوسرے مسلمان شہیدہوئے اور اس جنگ میں مشرکوں کی رہبری ابوسفیان کے ہاتھ میں تھی لیکن بنی امیہ کے دل پھر بھی بدر کا کینہ بھرا ہوا تھا اور یہ لوگ اسلام سے انتقام لینے کے در پئے تھے ۔
ابوسفیان جس نے رسول کے خلاف دوسری جنگوں کی بھی رہبری کی تھی اور فتح مکہ تک ایمان نہیں لایا تھا اور جب اسلام کا عظیم لشکر فتح مکہ کے لئے(آٹھویں ہجری میں) مکہ کی طرف بڑھا تو یہ ان کے لشکر کی تاب نہ لا سکا اور مسلمانوں کے مقابلے میں تسلیم ہو کر ظاہرا ایمان لے آیا اور اس کے ساتھ اس کا بیٹامعاویہ بھی (ظاہری طور پر)مسلمان ہوگیا، لیکن واضح قرائن سے پتہ چلتاہے کہ ان کا اسلام واقعی نہیں تھا ۔
امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں کئی جگہ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ابوسفیان، معاویہ اور ان کی اولاد دل سے اسلام نہیں لائے تھے، آپ مکتوب ١٧ میں معاویہ کو خطاب کرکے فرماتے ہیں:
""وکنتم ممن دخل فی الدین: اما رغبة و اما رھبة""۔ تم ان لوگوں میں سے تھے جو اس دین میں داخل ہوئے لیکن یہ کام یا دنیاکے لئے تھا یا ڈر کی وجہ سے تھا ۔
اسی طرح مکتوب١٦ میں فرماتے ہیں : ""فوالذی فلق الحبة و برا النسمة ما اسلموا ولکن استسلموا و اسروا الکفر، فلما وجدوا اعوانا علیہ اظھرواہ ""۔
قسم اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اور جاندار چیزوں کو پیدا کیا ہے کہ یہ لوگ اسلام نہیں لائے ہیں بلکہ حالات کے سامنے سپر انداختہ ہوگئے ہیں اور اپنے کفر کو چھپائے ہوئے ہیں او رجیسے ہی مددگار مل گئے ویسے ہی اظہار کردیا ۔
بے شک مشرکین کو شکست دینے میں حضرت علی علیہ السلام نے اساسی کردار ادا کیا اور دوسری جنگوں میں بھی آپ نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور یہی وجہ ہوئی کہ مشرکین قریش کے دل میں آپ کی طرف سے بہت عظیم کینہ پیدا ہوگیا ۔
ان واقعات میں بنی امیہ کے افرادکھل کر اسلام کے خلاف سعی و کوشش میں لگے ہوئے تھے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ہمت، حضرت علی (علیہ السلام) اور تمام مسلمانوں کی شجاعت سے ان کی یہ کوشش ناکام ہوگئی اوران کے تمام خاندان والے مختلف جنگوں میں حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے لہذا یہ لوگ بنی ہاشم سے انتقام لینے کے ایسے موقع کا انتظار کررہے تھے ۔
اسلام کے کامیاب ہونے کے بعد رسول اللہ کے زمانے میں ان لوگوں میں انتقام کی ہمت وجرات نہیں تھی لیکن جب حکومت ان کے ہاتھ میں آگئی تو انہوں نے اپنے کینہ کو آشکار کردیا ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.