مختصر جواب:
مفصل جواب:
رسول اسلام نے تمام حالات وشرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے بارہا حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت اور ان کے مقام کو مسلمانوں کے سامنے بیان فرمایا اور غدیر خم کے میدان میں ہزاروں لوگوں کے درمیان آپ نے حضرت علی کو اپنا جانشین اور امام بنایا اور بارہا لوگوں کو وصیت کی کہ میرے اہل بیت کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا لیکن ہمیشہ حضرت علی (علیہ السلام) اور ان کے خاندان کے حق میں قریش کے بغض و کینہ سے پریشان رہتے تھے ۔
اہل سنت کے بزرگ عالم""طبرانی"" معجم الکبیر میں نقل کرتے ہیں : ایک روز رسول اسلام نے حضرت علی کی طرف نظر کی اور رونے لگے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیوں رو رہے ہیں؟ تو آنحضرت نے حضرت علی سے مخاطب ہو کر فرمایا:
""ضغائن فی صدور قوم لا یبدونھا لک حتی یفقدونی"" ( میرا گریہ)اس وجہ سے ہے کہ ایک قوم کے دل میں تمہاری طرف سے بہت زیادہ حسد وکینہ بھرا ہوا ہے اور وہ میرے بعد اس کینہ وحسد کو ظاہر کریں گے(١) ۔
حضرت علی علیہ السلام بھی بخوبی واقف تھے کہ قریش میں سے جو لوگ ظاہرا اسلام لے آئے ہیں وہ انتقام لینے کے انتظار میں ہیں لیکن حضرت علی علیہ السلام کے ہوتے ہوئے ان میں اتنی جرات وہمت نہیں تھی لیکن وہ اس موقع کی تلاش کررہے تھے کہ جب اچھی طریقہ سے اوضاع وحوال پر مسلط ہوجائیں تو اسلام کے زمانے کی شکستوں کا بدلہ لیں ۔
ابن ابی الحدید حضرت علی علیہ السلام کا ایک قول نقل کرتاہے جس میں آپ کی پریشانی بخوبی روشن ہے وہ لکھتا ہے : حضرت علی علیہ السلام خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:
""اللھم انی استعدیک علی قریش، فانھم اضمروا لرسولک صلی اللہ علیہ وآلہ ضروبا من الشر والغدر، فعجزوا عنھا،و حلت بینھم و بینھا فکانت الوجبة بی، والدائرة علی، اللھم احفظ حسنا وحسینا، ولا تمکن فجرة قریش منھما ما دمت حیا، فاذا توفیتنی فانت الرقیب علیھم، وانت علی کل شئی شھید""۔
خدا وندا! میں تجھ سے قریش پرکامیابی کے لئے مدد مانگتا ہوں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تمہارے پیغمبر کے بارے میں طرح طرح کے حیلہ و نیرنگ سے کام لیا لیکن ان حیلوں کو بروئے کار نہ لا سکے اور تونے ان کے مقاصد کو پورا نہ ہونے دیا، اس کے بعد سب کے سب میری طرف متوجہ ہوگئے اور اپنے حیلہ مجھ پر آزمانے لگے ۔ پروردگارا !حسن وحسین کی حفاظت فرما، جب تک میں زندہ ہوں فاجر وفاسق قریش کے مکرو فریب کو ان سے دور رکھ اور جب مجھے ان کے درمیان سے اٹھا لے تو خود ان کی حفاظت کرنا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے(٢) (٣) ۔
اہل سنت کے بزرگ عالم""طبرانی"" معجم الکبیر میں نقل کرتے ہیں : ایک روز رسول اسلام نے حضرت علی کی طرف نظر کی اور رونے لگے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیوں رو رہے ہیں؟ تو آنحضرت نے حضرت علی سے مخاطب ہو کر فرمایا:
""ضغائن فی صدور قوم لا یبدونھا لک حتی یفقدونی"" ( میرا گریہ)اس وجہ سے ہے کہ ایک قوم کے دل میں تمہاری طرف سے بہت زیادہ حسد وکینہ بھرا ہوا ہے اور وہ میرے بعد اس کینہ وحسد کو ظاہر کریں گے(١) ۔
حضرت علی علیہ السلام بھی بخوبی واقف تھے کہ قریش میں سے جو لوگ ظاہرا اسلام لے آئے ہیں وہ انتقام لینے کے انتظار میں ہیں لیکن حضرت علی علیہ السلام کے ہوتے ہوئے ان میں اتنی جرات وہمت نہیں تھی لیکن وہ اس موقع کی تلاش کررہے تھے کہ جب اچھی طریقہ سے اوضاع وحوال پر مسلط ہوجائیں تو اسلام کے زمانے کی شکستوں کا بدلہ لیں ۔
ابن ابی الحدید حضرت علی علیہ السلام کا ایک قول نقل کرتاہے جس میں آپ کی پریشانی بخوبی روشن ہے وہ لکھتا ہے : حضرت علی علیہ السلام خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:
""اللھم انی استعدیک علی قریش، فانھم اضمروا لرسولک صلی اللہ علیہ وآلہ ضروبا من الشر والغدر، فعجزوا عنھا،و حلت بینھم و بینھا فکانت الوجبة بی، والدائرة علی، اللھم احفظ حسنا وحسینا، ولا تمکن فجرة قریش منھما ما دمت حیا، فاذا توفیتنی فانت الرقیب علیھم، وانت علی کل شئی شھید""۔
خدا وندا! میں تجھ سے قریش پرکامیابی کے لئے مدد مانگتا ہوں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تمہارے پیغمبر کے بارے میں طرح طرح کے حیلہ و نیرنگ سے کام لیا لیکن ان حیلوں کو بروئے کار نہ لا سکے اور تونے ان کے مقاصد کو پورا نہ ہونے دیا، اس کے بعد سب کے سب میری طرف متوجہ ہوگئے اور اپنے حیلہ مجھ پر آزمانے لگے ۔ پروردگارا !حسن وحسین کی حفاظت فرما، جب تک میں زندہ ہوں فاجر وفاسق قریش کے مکرو فریب کو ان سے دور رکھ اور جب مجھے ان کے درمیان سے اٹھا لے تو خود ان کی حفاظت کرنا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے(٢) (٣) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.