مختصر جواب:
مفصل جواب:
امام حسن علیہ السلام جوکہ نبوی اورعلوی حاحکمیت کے وارث اور امت کی معنوی رہبری کے مستحق تھے آپ نے اسلامی ارزشوں کو زندہ کرنے اور عدل و انصاف کو پھیلانے اور ظالمین سے جنگ کرنے کی غرض سے اسلامی حکومت کو تشکیل دینا چاہا، اس قصد وارادہ کے ساتھ کہ اگر ممکن ہوا تو اسلامی حکومت کو تشکیل دے کر ورنہ اپنی اور اپنے اصحاب کی شہادت کے ذریعہ بنی امیہ کے تمام رازوں کو فاش کرسکیںاور اس طرح ظلم وکفر و نفاق کے درخت کو اکھاڑ پھینکیں اور امت اسلامی کی مدد کرسکیں۔
امام حسین علیہ السلام نے ایک خطبہ میں اپنے ہدف کو اس طرح بیان کیا:
اللھم انک تعلم انہ لم یکن ما کان منا تنافسا فی سلطان، و لا التماسا من فضول الحطام، ولکن لنری المعالم من دینک، و نظھر الاصلاح فی بلادک ویامن المظلومون من عبادک و یعمل بفرائضک و سنتک و احکامک۔
خدا وندا! تو جانتاہے جو کچھ ہم (لوگوں کو اکھٹا کرنے میں)انجام دے رہے ہیں وہ حکومت میں مقابلہ اور مال و دولت کو حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کردیں اور سارے شہروں میں اصلاح اور صحیح امور کو قائم کردیں، تاکہ تیرے مظلوم بندے پریشان نہ ہوں، تیرے احکام، فرایض اور مستحبات پر عمل کیا جائے (١) ۔
امام خمینی نے اپنے بیان میں اس مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امام حسین حکومت کے لئے نہیں آئے تھے وہ غلط ہے (ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ) وہ حکومت کے لئے آئے تھے اس لئے کہ حکومت سیدالشہداء جیسے کے ہاتھ میں ہونی چاہئے، حکومت ایسے آدمیوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے جو سید الشہداء کے شیعہ ہوں(٢) ۔
اگر چہ امام جانتے تھے کہ اس راہ میں شہید ہو جائیں گے ۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں: سیدالشہداء کی زندگی، حضرت صاحب الزمان کی زندگی، دنیا کے تمام انبیاء کی زندگی آدم سے لیکر اور اب تک یہی رہی ہے کہ جور کے مقابلے میں عدل کی حکومت کو قائم کریں(٣) ۔
اگر امام حسین علیہ السلام کی زندگی پر نظر ڈالیں تو اچھی طرح معلوم ہوجاتاہے کہ آپ نوجوانی ہی سے خلافت کا مستحق فقط اہل بیت کوسمجھتے تھے ۔
تاریخ میں ملتا ہے : ایک روز عمر، رسول خدا کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور اپنے خطبہ میں کہہ رہے تھے : میں مجھے مومنین پر ان سے زیادہ حق حاصل ہے ۔
امام حسین علیہ السلام مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے (عمر کو مخاطب کرتے ہوئے )فریاد کی:
میرے والد رسول خدا کے منبر سے نیچے آجاؤ! یہ منبر تیرے باپ کا نہیں ہے (جو اس کے اوپر جاکر بیٹھ گئے ہو اور اس طرح دعوے کر رہے ہو!) ۔
عمر نے کہا: اے حسین! میر جان کی قسم میں جانتا ہوں کہ یہ منبر تمہارے باپ کا ہے نہ میرے باپ کا، لیکن یہ بتاؤ یہ بات آپ کو کس نے بتائی؟ تمہارے والد علی بن ابی طالب نے؟!
امام حسین نے فرمایا: میں اپنے والد کے حکم کا تابع ہوںمیری جان کی قسم وہ ہدایت کرنے والے ہیں اور میری ہدایت انہوں نے ہی کی ہے، لوگوں کی گردنوں پر ان کی بیعت، پیغمبر اکرم کے زمانے سے ہے جس کو جبرئیل خدا کی طرف سے لے کر آئے تھے اور کتاب خدا کے منکر کے علاوہ کوئی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا ۔ لوگوں نے ان کو دل سے پہچانا (اور جانتے ہیں کہ حق میرے والد کے ساتھ ہے)لیکن زبان سے ان کا انکار کردیا، ہم اہل بیت کے حقوق کے منکر وں پر وائے ہو!…۔
عمر نے کہا: ائے حسین! جو بھی تمہارے والد کے حق کا انکار کرے خدا پر اس کی لعنت ہو!(لیکن میری کوئی غلطی نہیں ہے کیونکہ)لوگوں نے ہمیں امیر بنایا ہے اور ہم نے بھی اس کو قبول کرلیا اور اگر تمہارے والد کو امیر بناتے تو ہم بھی ان کی اطاعت کرتے!
امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا: ائے خطاب کے بیٹے! کن لوگوں نے تم کو اپنا امیر بنایا ، سب سے پہلے تم نے ابوبکر کو اپنا (اور لوگوں کا) امیر بنایا اور انہوں نے بھی بغیر کسی دلیل وحجت اور آل محمد کی رضایت کے بغیر تجھے لوگوں کا امیر بنا دیا ۔ کیا تم دونوں کی رضایت، وہی خدا اور پیغمبر کی رضایت ہے؟!
عمر کے پا س اس کا کوئی جواب نہیں تھا غصہ میں منبر سے نیچے اتر آیااور تمام لوگوں کے ساتھ علی علیہ السلام کے پاس گیا اور امام حسین کی شکایت کی(٤) ۔
امام حسین علیہ السلام اپنے والد اوربھائی امام حسن کی خلافت کے دوران حکومت اسلامی کو تقویت بخشنے کے لئے ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہے اور اسلام کے دشمنوں سے لڑتے رہے ۔
جب معاویہ نے یزید کی بیعت لینے کے لئے دوسرے شہروں کا سفر کیا تو مدینہ میں بھی یزید کو پہچنوانے کے لئے ایک اجتماع کو تشکیل دیا اور کہا:
خدا کی قسم! اگر میں مسلمانوں میں کسی اور کو یزید سے بہتر پاتا تو اس کے لئے بیعت لیتا!!
امام حسین علیہ السلام کھڑے ہوگئے اور فرمایا:
واللہ لقد ترکت من ھو خیر منہ ابا واما و نفسا ۔ خدا کی قسم!جوشخص ماں و باپ اور شخصی صفات کی وجہ سے یزید سے بہتر ہے اس کو الگ ہٹا دیا!
معاویہ نے کہا : تم شاید اپنے آپ کو کہہ رہے ہو؟
آپ نے فرمایا: جی ہاں!
معاویہ خاموش ہوگیا (٥) ۔
دوسری روایت کے مطابق امام نے فرمایا:
""انا واللہ احق بھا منہ، فان ابی خیر من ابیہ، و جدی خیر من جدہ، و امی خیر من امہ و انا خیر منہ"" ۔ خدا کی قسم! میں یزیدسے زیادہ خلافت کا مستحق ہوں ا سلئے کہ میرے والد ا س کے باپ سے اور میرے دادا ا سکے دادا سے اور میر ی والدہ اس کی والدہ سے بہتر ہے اور میں خود اس سے بہتر ہوں(٦) ۔
ان کلمات سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ اس زمانے میں اما م حسین اپنے آپ کو خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتے تھے اور معتقد تھے کہ آپ (اپنی خاندانی اور معنوی عظمت کی وجہ سے)مسلمین کے امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھیں۔
بہرحال تاریخی شواہدکے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ امام کے اہداف میں سے ایک ہدف حکومت اسلامی کی تشکیل اور درواقع خلافت اسلامی کو اس کے حقیقی جگہ تک پہنچانا تھا تاکہ اس کے ذریعہ سے عدل وانصاف کوقائم کیا جاسکے، حق کو زندہ اور باطل وبدعتوں کو ختم کیاجسکے ۔
کوفہ کے لوگوں کی حمایت ، اعلان آمادگی اور ان کے اصرار وتاکیدنے امام علیہ السلام پر حجت تمام کردی تھی تاکہ چند دسیوں ہزار لوگوں کی تعداد کے ساتھ غاصب و ظالم حاکم کے خلاف قیام کریں اوراسی وجہ سے آپ کوفہ کی طرف آئے اور اس سے پہلے مسلم بن عقیل کے ذریعہ ان کی پیروی سے آگاہ ہوئے ۔(٧) ۔
امام حسین علیہ السلام نے ایک خطبہ میں اپنے ہدف کو اس طرح بیان کیا:
اللھم انک تعلم انہ لم یکن ما کان منا تنافسا فی سلطان، و لا التماسا من فضول الحطام، ولکن لنری المعالم من دینک، و نظھر الاصلاح فی بلادک ویامن المظلومون من عبادک و یعمل بفرائضک و سنتک و احکامک۔
خدا وندا! تو جانتاہے جو کچھ ہم (لوگوں کو اکھٹا کرنے میں)انجام دے رہے ہیں وہ حکومت میں مقابلہ اور مال و دولت کو حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کردیں اور سارے شہروں میں اصلاح اور صحیح امور کو قائم کردیں، تاکہ تیرے مظلوم بندے پریشان نہ ہوں، تیرے احکام، فرایض اور مستحبات پر عمل کیا جائے (١) ۔
امام خمینی نے اپنے بیان میں اس مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امام حسین حکومت کے لئے نہیں آئے تھے وہ غلط ہے (ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ) وہ حکومت کے لئے آئے تھے اس لئے کہ حکومت سیدالشہداء جیسے کے ہاتھ میں ہونی چاہئے، حکومت ایسے آدمیوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے جو سید الشہداء کے شیعہ ہوں(٢) ۔
اگر چہ امام جانتے تھے کہ اس راہ میں شہید ہو جائیں گے ۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں: سیدالشہداء کی زندگی، حضرت صاحب الزمان کی زندگی، دنیا کے تمام انبیاء کی زندگی آدم سے لیکر اور اب تک یہی رہی ہے کہ جور کے مقابلے میں عدل کی حکومت کو قائم کریں(٣) ۔
اگر امام حسین علیہ السلام کی زندگی پر نظر ڈالیں تو اچھی طرح معلوم ہوجاتاہے کہ آپ نوجوانی ہی سے خلافت کا مستحق فقط اہل بیت کوسمجھتے تھے ۔
تاریخ میں ملتا ہے : ایک روز عمر، رسول خدا کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور اپنے خطبہ میں کہہ رہے تھے : میں مجھے مومنین پر ان سے زیادہ حق حاصل ہے ۔
امام حسین علیہ السلام مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے (عمر کو مخاطب کرتے ہوئے )فریاد کی:
میرے والد رسول خدا کے منبر سے نیچے آجاؤ! یہ منبر تیرے باپ کا نہیں ہے (جو اس کے اوپر جاکر بیٹھ گئے ہو اور اس طرح دعوے کر رہے ہو!) ۔
عمر نے کہا: اے حسین! میر جان کی قسم میں جانتا ہوں کہ یہ منبر تمہارے باپ کا ہے نہ میرے باپ کا، لیکن یہ بتاؤ یہ بات آپ کو کس نے بتائی؟ تمہارے والد علی بن ابی طالب نے؟!
امام حسین نے فرمایا: میں اپنے والد کے حکم کا تابع ہوںمیری جان کی قسم وہ ہدایت کرنے والے ہیں اور میری ہدایت انہوں نے ہی کی ہے، لوگوں کی گردنوں پر ان کی بیعت، پیغمبر اکرم کے زمانے سے ہے جس کو جبرئیل خدا کی طرف سے لے کر آئے تھے اور کتاب خدا کے منکر کے علاوہ کوئی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا ۔ لوگوں نے ان کو دل سے پہچانا (اور جانتے ہیں کہ حق میرے والد کے ساتھ ہے)لیکن زبان سے ان کا انکار کردیا، ہم اہل بیت کے حقوق کے منکر وں پر وائے ہو!…۔
عمر نے کہا: ائے حسین! جو بھی تمہارے والد کے حق کا انکار کرے خدا پر اس کی لعنت ہو!(لیکن میری کوئی غلطی نہیں ہے کیونکہ)لوگوں نے ہمیں امیر بنایا ہے اور ہم نے بھی اس کو قبول کرلیا اور اگر تمہارے والد کو امیر بناتے تو ہم بھی ان کی اطاعت کرتے!
امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا: ائے خطاب کے بیٹے! کن لوگوں نے تم کو اپنا امیر بنایا ، سب سے پہلے تم نے ابوبکر کو اپنا (اور لوگوں کا) امیر بنایا اور انہوں نے بھی بغیر کسی دلیل وحجت اور آل محمد کی رضایت کے بغیر تجھے لوگوں کا امیر بنا دیا ۔ کیا تم دونوں کی رضایت، وہی خدا اور پیغمبر کی رضایت ہے؟!
عمر کے پا س اس کا کوئی جواب نہیں تھا غصہ میں منبر سے نیچے اتر آیااور تمام لوگوں کے ساتھ علی علیہ السلام کے پاس گیا اور امام حسین کی شکایت کی(٤) ۔
امام حسین علیہ السلام اپنے والد اوربھائی امام حسن کی خلافت کے دوران حکومت اسلامی کو تقویت بخشنے کے لئے ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہے اور اسلام کے دشمنوں سے لڑتے رہے ۔
جب معاویہ نے یزید کی بیعت لینے کے لئے دوسرے شہروں کا سفر کیا تو مدینہ میں بھی یزید کو پہچنوانے کے لئے ایک اجتماع کو تشکیل دیا اور کہا:
خدا کی قسم! اگر میں مسلمانوں میں کسی اور کو یزید سے بہتر پاتا تو اس کے لئے بیعت لیتا!!
امام حسین علیہ السلام کھڑے ہوگئے اور فرمایا:
واللہ لقد ترکت من ھو خیر منہ ابا واما و نفسا ۔ خدا کی قسم!جوشخص ماں و باپ اور شخصی صفات کی وجہ سے یزید سے بہتر ہے اس کو الگ ہٹا دیا!
معاویہ نے کہا : تم شاید اپنے آپ کو کہہ رہے ہو؟
آپ نے فرمایا: جی ہاں!
معاویہ خاموش ہوگیا (٥) ۔
دوسری روایت کے مطابق امام نے فرمایا:
""انا واللہ احق بھا منہ، فان ابی خیر من ابیہ، و جدی خیر من جدہ، و امی خیر من امہ و انا خیر منہ"" ۔ خدا کی قسم! میں یزیدسے زیادہ خلافت کا مستحق ہوں ا سلئے کہ میرے والد ا س کے باپ سے اور میرے دادا ا سکے دادا سے اور میر ی والدہ اس کی والدہ سے بہتر ہے اور میں خود اس سے بہتر ہوں(٦) ۔
ان کلمات سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ اس زمانے میں اما م حسین اپنے آپ کو خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتے تھے اور معتقد تھے کہ آپ (اپنی خاندانی اور معنوی عظمت کی وجہ سے)مسلمین کے امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھیں۔
بہرحال تاریخی شواہدکے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ امام کے اہداف میں سے ایک ہدف حکومت اسلامی کی تشکیل اور درواقع خلافت اسلامی کو اس کے حقیقی جگہ تک پہنچانا تھا تاکہ اس کے ذریعہ سے عدل وانصاف کوقائم کیا جاسکے، حق کو زندہ اور باطل وبدعتوں کو ختم کیاجسکے ۔
کوفہ کے لوگوں کی حمایت ، اعلان آمادگی اور ان کے اصرار وتاکیدنے امام علیہ السلام پر حجت تمام کردی تھی تاکہ چند دسیوں ہزار لوگوں کی تعداد کے ساتھ غاصب و ظالم حاکم کے خلاف قیام کریں اوراسی وجہ سے آپ کوفہ کی طرف آئے اور اس سے پہلے مسلم بن عقیل کے ذریعہ ان کی پیروی سے آگاہ ہوئے ۔(٧) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.