مختصر جواب:
مفصل جواب:
شاید سقیفہ میں موجود لوگوں نے اس بات کی طرف توجہ نہیں کی تھی کہ جو یہ لوگ معین کررہے ہیں وہ کچھ دنوں کے بعد ایک موروثی بادشاہت میں تبدیل ہوجائے گی ۔
بنی امیہ کی حکومت ایسی نہیں تھی کہ جو ایک دن میں برروئے کارآگئی ہو بلکہ یہ حکومت سالہا سال سے خلفاء کی پوشیدہ اور علنی حمایتوں کا نتیجہ ہے ۔
خلافت جو الہی عہدہ تھا سقیفہ میں عام انسانوں سے مخصوص ہوگیا اور چلتے چلتے یہ خلافت شام میں بنی امیہ کی بادشاہت میں تبدیل ہوگئی، یہ ایسی حکومت تھی جس کی امیدیں عشرت طلبی ، مال جمع کرنا اور حکومت اسلامی کو بادشاہت میںتبدیل کرنا تھا ۔
اس وقت جب قبیلوں کی برتری کابیج سقیفہ میں بویا جارہاتھا ابوسفیان اور اس کے خاندانی جو ظاہر ی طور پر مسلمان ہوگئے تھے، وہ اپنی سابقہ برائیوں اور اسلمی و مسلمین سے جنگ اور دشمنی کرنے کی وجہ سے ایسی حالت میں نہیں تھے کہ کسی فرصت سے استفادہ کرتے ۔
لیکن وہ یہ دیکھ کر خوش ہورہے تھے کہ قریش کے تیم و عدی جیسے بے نام ونشان قبیلہ نے قریش کے امتیاز سے فائدہ اٹھا کر پہلے ہی مرحلہ میں انصار کو الگ کردیا اور دوسرے مرحلہ میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے لئے پیغمبر اکرم کے واضح کلا م کو بھلادیا اور دوسرے راستہ کو اختیار کرلیا یہ لوگ دل ہی دل میں خوش تھے چہ جائیکہ یہ امتیاز دوسرے امتیازوں کے لئے مقدمہ بن گیا اور یہی وجہ ہوئی کہ بنی امیہ کے بزرگ حکومت کو حاصل کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔
ابوسفیان نے خود اس نکتہ کا اعتراف کیا او رکہا : ان الخلافة صارت فی تیم و عدی حتی طمعت فیھا ۔ جس وقت سے خلافت تیم اور عدی(ابوبکر اور عمر کے خاندان) میں آئی، میں بھی اس کا لالچ کرنے لگا(١) ۔
یہ بات واضح ہے کہ ابوسفیان جیسا آدمی جو اپنی آخری سانس تک پیغمبر اکرم کے سامنے کھڑا رہا وہ ابوبکر اور عمرجیسے لوگوں سے جن کا خاندان بھی بہت پست خاندان تھا(٢) کس طرح پیچھے ہٹ سکتا تھا ۔
لیکن جب سقیفہ کا واقعہ پیش آیا تو ابوسفیان مدینہ میں نہیں تھا جب وہ واپس آیا اور وہاں کی باتوںسے باخبر ہوا تو فتنہ برپا کرنے کے لئے پہلے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے پاس آیالیکن جب وہاںسے کوئی جواب نہ ملا تو ابوبکر اور عمر کی طرف دوڑا ۔
عمر نے ابوبکر سے کہا: ابوسفیان ہمارے پاس آرہا ہے اوروہ بہت خطرناک آدمی ہے لہذا اس نے جو زکات کا مال اکھٹا کیا ہے وہ اسی کو بخش دینا تاکہ خاموش رہے(٣) ۔
عمر کی اس چال سے ابوسفیان نے خلافت کے ساتھ صحیح و سالم زندگی بسر کرنا شروع کردیا ، لیکن تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت اس معمولی خاموشی سے کہیں آگے بڑھ چکی تھی (٤) ، بہر حال جو کچھ بھی تھا بنی امیہ نے اپنی خاموشی کا بدلہ خلیفہ وقت سے اس طرح لے لیا :
اس سال ابوبکر نے ایک لشکر یزید(ابوسفیان کا بیٹا ۔ معاویہ کابھائی)کی سرکردگی میں رومیوں سے جنگ کے لئے شام کی طرف بھیجا، اس فوج کا علمبردار معاویہ(ابوسفیان کا دوسرا بیٹا) تھاوہ اپنے بھائی کے بعد لشکر کا کمانڈر منتخب ہوا اور عمر کے زمانے میں اس جگہ کا والی بنادیا گیا ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ معاویہ نے اس ولایت کو حاصل کرنے کیلئے خلیفہ کے حکم کابھی انتظار نہیں کیا بلکہ وہاں کی حکومت کے لئے اس نے خود ہی اپنے آپ کو منصوب کرلیا اور کچھ دن کے بعد خلیفہ کا حکم اس تک پہنچا ۔
بنی امیہ اور ابوسفیان کی اولاد کا پیغمبر اکرم کے بعد خلافت وولایت کو اتنی جلدی حاصل کرلینا وہ بھی ایسی جگہ پر جو اسلامی مرکز خلافت سے بہت دور ہے تاریخ اسلام کے بہت ہی پررمز اور اتفاقات میں شمار ہوتا ہے ۔
ایسا اتفاق جس کے ذریعہ سے استبدادی اور بنی امیہ کی موروثی حکومت کی بنیادیں پہلے شام میں قائم ہوگئیں اس کے بعد پوری کی پوری دنیائے اسلام میں پھیل گئی(٥) ۔
بنی امیہ کی حکومت ایسی نہیں تھی کہ جو ایک دن میں برروئے کارآگئی ہو بلکہ یہ حکومت سالہا سال سے خلفاء کی پوشیدہ اور علنی حمایتوں کا نتیجہ ہے ۔
خلافت جو الہی عہدہ تھا سقیفہ میں عام انسانوں سے مخصوص ہوگیا اور چلتے چلتے یہ خلافت شام میں بنی امیہ کی بادشاہت میں تبدیل ہوگئی، یہ ایسی حکومت تھی جس کی امیدیں عشرت طلبی ، مال جمع کرنا اور حکومت اسلامی کو بادشاہت میںتبدیل کرنا تھا ۔
اس وقت جب قبیلوں کی برتری کابیج سقیفہ میں بویا جارہاتھا ابوسفیان اور اس کے خاندانی جو ظاہر ی طور پر مسلمان ہوگئے تھے، وہ اپنی سابقہ برائیوں اور اسلمی و مسلمین سے جنگ اور دشمنی کرنے کی وجہ سے ایسی حالت میں نہیں تھے کہ کسی فرصت سے استفادہ کرتے ۔
لیکن وہ یہ دیکھ کر خوش ہورہے تھے کہ قریش کے تیم و عدی جیسے بے نام ونشان قبیلہ نے قریش کے امتیاز سے فائدہ اٹھا کر پہلے ہی مرحلہ میں انصار کو الگ کردیا اور دوسرے مرحلہ میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے لئے پیغمبر اکرم کے واضح کلا م کو بھلادیا اور دوسرے راستہ کو اختیار کرلیا یہ لوگ دل ہی دل میں خوش تھے چہ جائیکہ یہ امتیاز دوسرے امتیازوں کے لئے مقدمہ بن گیا اور یہی وجہ ہوئی کہ بنی امیہ کے بزرگ حکومت کو حاصل کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔
ابوسفیان نے خود اس نکتہ کا اعتراف کیا او رکہا : ان الخلافة صارت فی تیم و عدی حتی طمعت فیھا ۔ جس وقت سے خلافت تیم اور عدی(ابوبکر اور عمر کے خاندان) میں آئی، میں بھی اس کا لالچ کرنے لگا(١) ۔
یہ بات واضح ہے کہ ابوسفیان جیسا آدمی جو اپنی آخری سانس تک پیغمبر اکرم کے سامنے کھڑا رہا وہ ابوبکر اور عمرجیسے لوگوں سے جن کا خاندان بھی بہت پست خاندان تھا(٢) کس طرح پیچھے ہٹ سکتا تھا ۔
لیکن جب سقیفہ کا واقعہ پیش آیا تو ابوسفیان مدینہ میں نہیں تھا جب وہ واپس آیا اور وہاں کی باتوںسے باخبر ہوا تو فتنہ برپا کرنے کے لئے پہلے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے پاس آیالیکن جب وہاںسے کوئی جواب نہ ملا تو ابوبکر اور عمر کی طرف دوڑا ۔
عمر نے ابوبکر سے کہا: ابوسفیان ہمارے پاس آرہا ہے اوروہ بہت خطرناک آدمی ہے لہذا اس نے جو زکات کا مال اکھٹا کیا ہے وہ اسی کو بخش دینا تاکہ خاموش رہے(٣) ۔
عمر کی اس چال سے ابوسفیان نے خلافت کے ساتھ صحیح و سالم زندگی بسر کرنا شروع کردیا ، لیکن تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت اس معمولی خاموشی سے کہیں آگے بڑھ چکی تھی (٤) ، بہر حال جو کچھ بھی تھا بنی امیہ نے اپنی خاموشی کا بدلہ خلیفہ وقت سے اس طرح لے لیا :
اس سال ابوبکر نے ایک لشکر یزید(ابوسفیان کا بیٹا ۔ معاویہ کابھائی)کی سرکردگی میں رومیوں سے جنگ کے لئے شام کی طرف بھیجا، اس فوج کا علمبردار معاویہ(ابوسفیان کا دوسرا بیٹا) تھاوہ اپنے بھائی کے بعد لشکر کا کمانڈر منتخب ہوا اور عمر کے زمانے میں اس جگہ کا والی بنادیا گیا ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ معاویہ نے اس ولایت کو حاصل کرنے کیلئے خلیفہ کے حکم کابھی انتظار نہیں کیا بلکہ وہاں کی حکومت کے لئے اس نے خود ہی اپنے آپ کو منصوب کرلیا اور کچھ دن کے بعد خلیفہ کا حکم اس تک پہنچا ۔
بنی امیہ اور ابوسفیان کی اولاد کا پیغمبر اکرم کے بعد خلافت وولایت کو اتنی جلدی حاصل کرلینا وہ بھی ایسی جگہ پر جو اسلامی مرکز خلافت سے بہت دور ہے تاریخ اسلام کے بہت ہی پررمز اور اتفاقات میں شمار ہوتا ہے ۔
ایسا اتفاق جس کے ذریعہ سے استبدادی اور بنی امیہ کی موروثی حکومت کی بنیادیں پہلے شام میں قائم ہوگئیں اس کے بعد پوری کی پوری دنیائے اسلام میں پھیل گئی(٥) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.