مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس کمیٹی اور عثمان کے خلیفہ بننے کا مختصر خلاصہ اس طرح ہے :
جس وقت فیروز نامی شخص جس کی کنیت ابولولو تھی، نے عمر کو زخمی کردیا اور عمر نے دیکھا کہ اب مرنے والا ہوں تو اس طرح کہنے لگا: پیغمبر اکرم مرتے وقت تک ان چھے آدمیوں سے خوش تھے: علی، عثمان، طلحہ، زبیر، سعدبن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف۔ لہذاخلافت کے امور ان چھے آدمیوں کے مشورے سے انجام دیئے جائیں تاکہ یہ لوگ ایک شخص کوان میں سے انتخاب کرلیں، پھر حکم دیا کہ ان چھے آدمیوں کو حاضر کیاجائے اور ان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا : تم میں سے سب میرے بعد خلیفہ بننا چاہتے ہو، وہ لوگ چپ رہے، اس نے دوبارہ اپنے جملہ کی تکرار کی ۔ زبیر نے جواب دیا: ہم تجھ سے کم نہیں ہیں، تو پھر کیوں خلافت کے مستحق نہیں بن سکتے!
اس کے بعد عمر نے ہر چھے آدمیوں کے عیبوں کو شمار کیااور طلحہ سے کہا: پیغمبر اکرم دنیا سے چلے گئے لیکن تم سے آیة حجاب کی وجہ سے کلام نہیں کیا اور تم سے ناراضگی کی حالت میں دنیاسے تشریف لے گئے(١) اور حضرت علی سے کہا : تم لوگوں کو راہ روشن اور صحیح راستہ کی طرف ہدایت کروگے لیکن تمہارا عیب یہ ہے کہ تم زیادہ مزاخ کرتے ہو!
عمر نے عثمان کا عیب گنواتے ہوئے کہا:
کانی بک قد قلدتک قریش ھذا الامر لحبھا ایاک، فحملت بنی امیہ وبنی ابی معیط علی رقاب الناس، و آثرتھم بالفی، فسارت الیک عصابة من ذؤبان العرب، فذبحوک علی فراشک ذبحا ۔ گویا کہ میں دیکھ رہاہوں کہ قریش نے خلافت کے امور تمہارے سپرد کردئیے ہیں اور تم نے بنی امیہ اور بنی ابی معیط کو لوگوں پر مسلط کردیا ہے اور بیت المال کو ان کے قدموں میں نچھاور کررکھاہے اور(مسلمانوں کی شورش کی وجہ سے)عرب کے بھیڑیوں کا ایک گروہ تجھے تیرے بستر پر قتل کررہا ہے(٢) ۔
اس کے بعد اس نے ابوطلحہ انصاری کو بلایا اور اس کو حکم دیا کہ میرے مرنے کے بعد ان چھے آدمیوں کو پچاس لوگوں کی موجودگی میں ایک کمرہ میں بند کردینا تاکہ جانشین انتخاب کرنے کے لئے آپس میں مشورہ کریں اگر پانچ آدمی کسی ایک کو خلیفہ بنانا چاہیں اور ایک آدمی مخالفت کرے تو اس کو قتل کردینا، اسی طرح اگر چار آدمی ایک دوسرے کے موافق ہوں لیکن دو مخالف ہوں توان دونوں کو قتل کردینا اور اگر تین آدمی ایک طرف اور تین ایک طرف ہوں تو جس طرف عبدالرحمن بن عوف ہو ان لوگوں کو مقدم کرنا اور دوسرے اگر مخالفت کریں تو ان کو قتل کردینا اور اگر کمیٹی کو تین دن ہوجائیںاور کوئی متفق فیصلہ نہ ہوسکے تو سب کو قتل کردینا تاکہ مسلمان خود اپنے لئے خلیفہ منتخب کرلیں!
آخر کار طلحہ کو معلوم تھا کہ علی اور عثمان کے ہوتے ہوئے خلافت اس کو نہیں مل سکتی اور وہ حضرت علی سے خوش بھی نہیں تھا اس لئے عثمان کی طرف چلا گیا جب کہ زبیر نے اپنا ووٹ حضرت علی کو دیدیا سعد بن ابی وقاص نے اپنا ووٹ اپنے چچا زاد بھائی عبدالرحمن بن عوف کودیدیا اس بنیاد پر چھے لوگ تین لوگوں میں تقسیم ہوگئے، علی، عبدالرحمن اور عثمان۔
عبدالرحمن نے پہلے حضرت علی کی طرف رخ کیااورکہا: تمہاری اس شرط پر بیعت کرتاہوں کہ کتاب خدا ، سنت پیغمبر اور ابوبکر وعمر کے راستے پر چلو۔حضرت علی نے اس کے جواب میں کہا: قبول کرتا ہوں لیکن خدا،سنت پیغمبر اور اپنی نظرکے مطابق عمل کروں گا ۔عبدالرحمن نے عثمان کی طرف رخ کرکے وہی جملہ تکرار کیا، عثمان نے اس کو قبول کرلیا، عبدالرحمن نے تین مرتبہ اس جملہ کی تکرار کی اور وہی جواب سنالہذا اس نے بیعت کے لئے عثمان کا ہاتھ پھیلایا یہاں پر حضرت علی نے عبدالرحمن سے فرمایا: خدا کی قسم! تو نے یہ کام نہیں کیا مگر یہ کہ تجھے اس سے کسی کام کی امید ہے جس طرح خلیفہ اول و دوم کو ایک دوسرے سے امید تھی لیکن تم کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکوگے(٣) ۔
یہاں پر کچھ نکات قابل غور ہیں:
چھے آدمیوں کی کمیٹی اس طرح تشکیل دی گئی تھی کہ جس میں خلافت حضرت علی تک نہ پہنچ سکے کیونکہ طلحہ کا تعلق ""تیم"" خاندان سے تھااور عائشہ کے چچا کا لڑکا تھا یعنی جس قبیلہ سے ابوبکر کاتعلق تھا اسی سے طلحہ کا تعلق تھا اوریہ خاندان حضرت علی کی طرف مایل نہیں تھا ۔
سعد بن ابی وقاص کی ماں بھی بنی امیہ سے تھی اور اس کے ماموں اور دوسرے رشتہ دار اسلام اور کفر کی جنگ میں حضرت علی کے ہاتھوں سے قتل ہوچکے تھے اور اسی وجہ سے اس نے حضرت علی کی خلافت کے زمانے میں بھی آپ کی بیعت نہیں کی تھی اور عمربن سعد جس نے کربلا اور عاشور کے واقعہ میں امام حسین کو شہید کیاوہ اسی کا بیٹا تھا اس وجہ سے حضرت علی سے بغض وحسد اس کے اندر زیادہ پایا جاتا تھااور اسی وجہ سے وہ حضرت علی کی طرف مایل نہیں تھا ۔ عبدالرحمن بن عوف، عثمان کا داماد تھا کیونکہ وہ ام کلثوم، عثمان کی بہن کا شوہر تھا ۔
لہذا فقط زبیر جو حضرت علی کو پسند کرتاتھا حضرت علی کی طرف آگیا اور دوسرے ووٹ عثمان کی طرف چلے گئے ۔
حضرت علی نے خطلبہ شقشقیہ(نہج البلاغہ کاتیسرا خطبہ)میں اس واقعہ کو خلاصتابیان کیا ہے، آپ نے فرمایا:
فصغا رجل منھم لضغنہ ومال لآخر لصہرہ مع ھن وھن۔ان میں سے ایک شخص تو کینہ و دشمنی کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسرا دامادی اور بعض نا گفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر (عثمان کی طرف)جھک گیا(٣) ۔
اس کے علاوہ عمر نے وضاحت کے ساتھ طلحہ، سعدبن ابی وقاص اور عبدالرحمن کے عیب گنوادئیے تھے جو اس بات پرگواہ ہے کہ یہ لوگ خلافت کے مستحق نہیں تھے ۔
طلحہ کے متعلق کہا: رسول خدا آیة حجاب کے واقعہ کی وجہ سے اس سے ناراض تھے(٤) ۔
سعدبن ابی وقاص سے کہا: تم جنگجو ہو لہذا خلافت اورلوگوں کے کام تمہارے بس کی بات نہیں ہے(٥) ۔
عبدالرحمن بن عوف سے کہا : تم ضعیف مرد ہو اور تمہارے جیسا ضعیف آدمی اس منصب کے لائق نہیں ہے(٦)
وہ ان باتوں کے ذریعہ فقط حضرت علی اور عثمان کو ووٹ دے رہاتھاکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو قبول کرنالیکن اس میں بھی اس نے عثمان کو زیادہ خلافت کا مستحق بتایا ۔
شاید اسی وجہ سے سیاسی لوگ پیش بینی کررہے تھے کہ حکومت علی کو نہیں ملے گی اور حضرت علی کو کمیٹی کے جلسہ میں شرکت کرنے کو منع کررہے تھے ۔
طبری کے بقول ابن عباس نے حضرت علی سے کہا: اس کمیٹی میں نہ جاؤ، حضرت علی نے جواب دیا: میں نہیںچاہتاکہ میری طرف سے کوئی مخالفت ظاہر ہو۔
ابن عباس نے کہا: اذاتری ماتکرہ۔ ایسی صورت میں جو تمہارے لئے بہتر نہیں ہے اس کو دیکھوگے(٧) ۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے آپ کو اس خلافت وامامت کے منصب کے لایق دیکھ رہے تھے اس لئے آپ نے جلسہ میں شرکت کی اور دلائل کے ذریعہ آپ نے اپنے حق کو ثابت کیالیکن انہوں نے اپنی منظم سازش کی بناء پر لوگوں کو علی (علیہ السلام) کی رہبری سے محروم کردیا ۔
اس کے علاوہ حضرت علی نہیںچاہتے تھے کہ آپ کو مخالفت سے متہم کیا جائے اور لوگ نہ کہیں کہ اگر حضرت علی اس کمیٹی میںشرکت کرتے تو ان کو ان کاحق مل جاتا اس وجہ سے آپ نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ جلسہ میں شرکت کی جائے ۔
دوم : تعجب کی بات نہیں کہ عمرنے ایسی کمیٹی منظم کی تھی جس میں ہرحال میں خلیفہ عثمان ہی کو بننا تھاکیونکہ عثمان نے (ابوبکر کے بعد)عمر کو خلیفہ بنا نے میں بہت زیادہ کام کیا تھا ۔
مشہور مؤرخ ابن اثیر کہتا ہے: ابوبکر نے حالت احضار میں عثمان کو بلایا تاکہ خلافت کے متعلق وصیت لکھ سکے لہذا اس سے کہا:لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ وصیت ہے جو ابوبکر نے مسلمانوں کی ہے امابعد...۔
ابوبکر اسی حالت میں بیہوش ہوگیا لیکن عثمان نے خود یہ جملہ لکھ دیا: اما بعد فانی قد استخلفت علیکم عمربن الخطاب ولم الکم خیرا ۔ میں نے عمربن خطاب کو تم پر خلیفہ بنا دیا اور تمہارے لئے کوئی بھی اچھائی اور برائی کو باقی نہیں چھوڑا!
جب عثمان نے یہ جملہ لکھ دیا تو ابوبکر ہوش میں آگیا اور کہا: پڑھو ، اس نے پڑھا ۔ ابوبکر نے تکبیر کہی! اور اس کے بعد اضافہ کیا:میں سمجھتا ہوں(کہ تم نے جلدی میں خلافت کے لئے عمرکا نام اس لئے لکھ دیا)کہ تم ڈر گئے کہ اگر میں ہوش میں نہ آؤں اور مرجاؤں تو لوگ اختلاف کریں گے ۔ عثمان نے کہا: جی ہاں! ایسا ہی تھا ۔ ابوبکر نے اس کے حق میں دعا کی!(٨) ۔
واقعا اس سے بڑھ کر اور کیا خدمت ہوسکتی تھی؟!(٩) ۔
جس وقت فیروز نامی شخص جس کی کنیت ابولولو تھی، نے عمر کو زخمی کردیا اور عمر نے دیکھا کہ اب مرنے والا ہوں تو اس طرح کہنے لگا: پیغمبر اکرم مرتے وقت تک ان چھے آدمیوں سے خوش تھے: علی، عثمان، طلحہ، زبیر، سعدبن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف۔ لہذاخلافت کے امور ان چھے آدمیوں کے مشورے سے انجام دیئے جائیں تاکہ یہ لوگ ایک شخص کوان میں سے انتخاب کرلیں، پھر حکم دیا کہ ان چھے آدمیوں کو حاضر کیاجائے اور ان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا : تم میں سے سب میرے بعد خلیفہ بننا چاہتے ہو، وہ لوگ چپ رہے، اس نے دوبارہ اپنے جملہ کی تکرار کی ۔ زبیر نے جواب دیا: ہم تجھ سے کم نہیں ہیں، تو پھر کیوں خلافت کے مستحق نہیں بن سکتے!
اس کے بعد عمر نے ہر چھے آدمیوں کے عیبوں کو شمار کیااور طلحہ سے کہا: پیغمبر اکرم دنیا سے چلے گئے لیکن تم سے آیة حجاب کی وجہ سے کلام نہیں کیا اور تم سے ناراضگی کی حالت میں دنیاسے تشریف لے گئے(١) اور حضرت علی سے کہا : تم لوگوں کو راہ روشن اور صحیح راستہ کی طرف ہدایت کروگے لیکن تمہارا عیب یہ ہے کہ تم زیادہ مزاخ کرتے ہو!
عمر نے عثمان کا عیب گنواتے ہوئے کہا:
کانی بک قد قلدتک قریش ھذا الامر لحبھا ایاک، فحملت بنی امیہ وبنی ابی معیط علی رقاب الناس، و آثرتھم بالفی، فسارت الیک عصابة من ذؤبان العرب، فذبحوک علی فراشک ذبحا ۔ گویا کہ میں دیکھ رہاہوں کہ قریش نے خلافت کے امور تمہارے سپرد کردئیے ہیں اور تم نے بنی امیہ اور بنی ابی معیط کو لوگوں پر مسلط کردیا ہے اور بیت المال کو ان کے قدموں میں نچھاور کررکھاہے اور(مسلمانوں کی شورش کی وجہ سے)عرب کے بھیڑیوں کا ایک گروہ تجھے تیرے بستر پر قتل کررہا ہے(٢) ۔
اس کے بعد اس نے ابوطلحہ انصاری کو بلایا اور اس کو حکم دیا کہ میرے مرنے کے بعد ان چھے آدمیوں کو پچاس لوگوں کی موجودگی میں ایک کمرہ میں بند کردینا تاکہ جانشین انتخاب کرنے کے لئے آپس میں مشورہ کریں اگر پانچ آدمی کسی ایک کو خلیفہ بنانا چاہیں اور ایک آدمی مخالفت کرے تو اس کو قتل کردینا، اسی طرح اگر چار آدمی ایک دوسرے کے موافق ہوں لیکن دو مخالف ہوں توان دونوں کو قتل کردینا اور اگر تین آدمی ایک طرف اور تین ایک طرف ہوں تو جس طرف عبدالرحمن بن عوف ہو ان لوگوں کو مقدم کرنا اور دوسرے اگر مخالفت کریں تو ان کو قتل کردینا اور اگر کمیٹی کو تین دن ہوجائیںاور کوئی متفق فیصلہ نہ ہوسکے تو سب کو قتل کردینا تاکہ مسلمان خود اپنے لئے خلیفہ منتخب کرلیں!
آخر کار طلحہ کو معلوم تھا کہ علی اور عثمان کے ہوتے ہوئے خلافت اس کو نہیں مل سکتی اور وہ حضرت علی سے خوش بھی نہیں تھا اس لئے عثمان کی طرف چلا گیا جب کہ زبیر نے اپنا ووٹ حضرت علی کو دیدیا سعد بن ابی وقاص نے اپنا ووٹ اپنے چچا زاد بھائی عبدالرحمن بن عوف کودیدیا اس بنیاد پر چھے لوگ تین لوگوں میں تقسیم ہوگئے، علی، عبدالرحمن اور عثمان۔
عبدالرحمن نے پہلے حضرت علی کی طرف رخ کیااورکہا: تمہاری اس شرط پر بیعت کرتاہوں کہ کتاب خدا ، سنت پیغمبر اور ابوبکر وعمر کے راستے پر چلو۔حضرت علی نے اس کے جواب میں کہا: قبول کرتا ہوں لیکن خدا،سنت پیغمبر اور اپنی نظرکے مطابق عمل کروں گا ۔عبدالرحمن نے عثمان کی طرف رخ کرکے وہی جملہ تکرار کیا، عثمان نے اس کو قبول کرلیا، عبدالرحمن نے تین مرتبہ اس جملہ کی تکرار کی اور وہی جواب سنالہذا اس نے بیعت کے لئے عثمان کا ہاتھ پھیلایا یہاں پر حضرت علی نے عبدالرحمن سے فرمایا: خدا کی قسم! تو نے یہ کام نہیں کیا مگر یہ کہ تجھے اس سے کسی کام کی امید ہے جس طرح خلیفہ اول و دوم کو ایک دوسرے سے امید تھی لیکن تم کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکوگے(٣) ۔
یہاں پر کچھ نکات قابل غور ہیں:
چھے آدمیوں کی کمیٹی اس طرح تشکیل دی گئی تھی کہ جس میں خلافت حضرت علی تک نہ پہنچ سکے کیونکہ طلحہ کا تعلق ""تیم"" خاندان سے تھااور عائشہ کے چچا کا لڑکا تھا یعنی جس قبیلہ سے ابوبکر کاتعلق تھا اسی سے طلحہ کا تعلق تھا اوریہ خاندان حضرت علی کی طرف مایل نہیں تھا ۔
سعد بن ابی وقاص کی ماں بھی بنی امیہ سے تھی اور اس کے ماموں اور دوسرے رشتہ دار اسلام اور کفر کی جنگ میں حضرت علی کے ہاتھوں سے قتل ہوچکے تھے اور اسی وجہ سے اس نے حضرت علی کی خلافت کے زمانے میں بھی آپ کی بیعت نہیں کی تھی اور عمربن سعد جس نے کربلا اور عاشور کے واقعہ میں امام حسین کو شہید کیاوہ اسی کا بیٹا تھا اس وجہ سے حضرت علی سے بغض وحسد اس کے اندر زیادہ پایا جاتا تھااور اسی وجہ سے وہ حضرت علی کی طرف مایل نہیں تھا ۔ عبدالرحمن بن عوف، عثمان کا داماد تھا کیونکہ وہ ام کلثوم، عثمان کی بہن کا شوہر تھا ۔
لہذا فقط زبیر جو حضرت علی کو پسند کرتاتھا حضرت علی کی طرف آگیا اور دوسرے ووٹ عثمان کی طرف چلے گئے ۔
حضرت علی نے خطلبہ شقشقیہ(نہج البلاغہ کاتیسرا خطبہ)میں اس واقعہ کو خلاصتابیان کیا ہے، آپ نے فرمایا:
فصغا رجل منھم لضغنہ ومال لآخر لصہرہ مع ھن وھن۔ان میں سے ایک شخص تو کینہ و دشمنی کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسرا دامادی اور بعض نا گفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر (عثمان کی طرف)جھک گیا(٣) ۔
اس کے علاوہ عمر نے وضاحت کے ساتھ طلحہ، سعدبن ابی وقاص اور عبدالرحمن کے عیب گنوادئیے تھے جو اس بات پرگواہ ہے کہ یہ لوگ خلافت کے مستحق نہیں تھے ۔
طلحہ کے متعلق کہا: رسول خدا آیة حجاب کے واقعہ کی وجہ سے اس سے ناراض تھے(٤) ۔
سعدبن ابی وقاص سے کہا: تم جنگجو ہو لہذا خلافت اورلوگوں کے کام تمہارے بس کی بات نہیں ہے(٥) ۔
عبدالرحمن بن عوف سے کہا : تم ضعیف مرد ہو اور تمہارے جیسا ضعیف آدمی اس منصب کے لائق نہیں ہے(٦)
وہ ان باتوں کے ذریعہ فقط حضرت علی اور عثمان کو ووٹ دے رہاتھاکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو قبول کرنالیکن اس میں بھی اس نے عثمان کو زیادہ خلافت کا مستحق بتایا ۔
شاید اسی وجہ سے سیاسی لوگ پیش بینی کررہے تھے کہ حکومت علی کو نہیں ملے گی اور حضرت علی کو کمیٹی کے جلسہ میں شرکت کرنے کو منع کررہے تھے ۔
طبری کے بقول ابن عباس نے حضرت علی سے کہا: اس کمیٹی میں نہ جاؤ، حضرت علی نے جواب دیا: میں نہیںچاہتاکہ میری طرف سے کوئی مخالفت ظاہر ہو۔
ابن عباس نے کہا: اذاتری ماتکرہ۔ ایسی صورت میں جو تمہارے لئے بہتر نہیں ہے اس کو دیکھوگے(٧) ۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے آپ کو اس خلافت وامامت کے منصب کے لایق دیکھ رہے تھے اس لئے آپ نے جلسہ میں شرکت کی اور دلائل کے ذریعہ آپ نے اپنے حق کو ثابت کیالیکن انہوں نے اپنی منظم سازش کی بناء پر لوگوں کو علی (علیہ السلام) کی رہبری سے محروم کردیا ۔
اس کے علاوہ حضرت علی نہیںچاہتے تھے کہ آپ کو مخالفت سے متہم کیا جائے اور لوگ نہ کہیں کہ اگر حضرت علی اس کمیٹی میںشرکت کرتے تو ان کو ان کاحق مل جاتا اس وجہ سے آپ نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ جلسہ میں شرکت کی جائے ۔
دوم : تعجب کی بات نہیں کہ عمرنے ایسی کمیٹی منظم کی تھی جس میں ہرحال میں خلیفہ عثمان ہی کو بننا تھاکیونکہ عثمان نے (ابوبکر کے بعد)عمر کو خلیفہ بنا نے میں بہت زیادہ کام کیا تھا ۔
مشہور مؤرخ ابن اثیر کہتا ہے: ابوبکر نے حالت احضار میں عثمان کو بلایا تاکہ خلافت کے متعلق وصیت لکھ سکے لہذا اس سے کہا:لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ وصیت ہے جو ابوبکر نے مسلمانوں کی ہے امابعد...۔
ابوبکر اسی حالت میں بیہوش ہوگیا لیکن عثمان نے خود یہ جملہ لکھ دیا: اما بعد فانی قد استخلفت علیکم عمربن الخطاب ولم الکم خیرا ۔ میں نے عمربن خطاب کو تم پر خلیفہ بنا دیا اور تمہارے لئے کوئی بھی اچھائی اور برائی کو باقی نہیں چھوڑا!
جب عثمان نے یہ جملہ لکھ دیا تو ابوبکر ہوش میں آگیا اور کہا: پڑھو ، اس نے پڑھا ۔ ابوبکر نے تکبیر کہی! اور اس کے بعد اضافہ کیا:میں سمجھتا ہوں(کہ تم نے جلدی میں خلافت کے لئے عمرکا نام اس لئے لکھ دیا)کہ تم ڈر گئے کہ اگر میں ہوش میں نہ آؤں اور مرجاؤں تو لوگ اختلاف کریں گے ۔ عثمان نے کہا: جی ہاں! ایسا ہی تھا ۔ ابوبکر نے اس کے حق میں دعا کی!(٨) ۔
واقعا اس سے بڑھ کر اور کیا خدمت ہوسکتی تھی؟!(٩) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.