مختصر جواب:
مفصل جواب:
چھے آدمیوں کی کمیٹی اس طرح تشکیل دی گئی تھی کہ جس میں خلافت حضرت علی تک نہ پہنچ سکے کیونکہ طلحہ کا تعلق ""تیم"" خاندان سے تھااور عائشہ کے چچا کا لڑکا تھا یعنی جس قبیلہ سے ابوبکر کاتعلق تھا اسی سے طلحہ کا تعلق تھا اوریہ خاندان حضرت علی کی طرف مایل نہیں تھا ۔
سعد بن ابی وقاص کی ماں بھی بنی امیہ سے تھی اور اس کے ماموں اور دوسرے رشتہ دار اسلام اور کفر کی جنگ میں حضرت علی کے ہاتھوں سے قتل ہوچکے تھے اور اسی وجہ سے اس نے حضرت علی کی خلافت کے زمانے میں بھی آپ کی بیعت نہیں کی تھی اور عمربن سعد جس نے کربلا اور عاشور کے واقعہ میں امام حسین کو شہید کیاوہ اسی کا بیٹا تھا اس وجہ سے حضرت علی سے بغض وحسد اس کے اندر زیادہ پایا جاتا تھااور اسی وجہ سے وہ حضرت علی کی طرف مایل نہیں تھا ۔ عبدالرحمن بن عوف، عثمان کا داماد تھا کیونکہ وہ ام کلثوم، عثمان کی بہن کا شوہر تھا ۔
لہذا فقط زبیر جو حضرت علی کو پسند کرتاتھا حضرت علی کی طرف آگیا اور دوسرے ووٹ عثمان کی طرف چلے گئے ۔
حضرت علی نے خطلبہ شقشقیہ(نہج البلاغہ کاتیسرا خطبہ)میں اس واقعہ کو خلاصہ کے طورپر بیان کیا ہے، آپ نے فرمایا:
فصغا رجل منھم لضغنہ ومال لآخر لصہرہ مع ھن وھن۔ان میں سے ایک شخص تو کینہ و دشمنی کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسرا دامادی اور بعض نا گفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر (عثمان کی طرف)جھک گیا(١) ۔
اس کے علاوہ عمر نے وضاحت کے ساتھ طلحہ، سعدبن ابی وقاص اور عبدالرحمن کے عیب گنوادئیے تھے جو اس بات پرگواہ ہے کہ یہ لوگ خلافت کے مستحق نہیں تھے ۔
طلحہ کے متعلق کہا: رسول خدا آیة حجاب کے واقعہ کی وجہ سے اس سے ناراض تھے(٢) ۔
سعدبن ابی وقاص سے کہا: تم جنگجو ہو لہذا خلافت اورلوگوں کے کام تمہارے بس کی بات نہیں ہے(٣) ۔
عبدالرحمن بن عوف سے کہا : تم ضعیف مرد ہو اور تمہارے جیسا ضعیف آدمی اس منصب کے لائق نہیں ہے(٤)
وہ ان باتوں کے ذریعہ فقط حضرت علی اور عثمان کو ووٹ دے رہاتھاکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو قبول کرنالیکن اس میں بھی اس نے عثمان کو زیادہ خلافت کا مستحق بتایا ۔
شاید اسی وجہ سے سیاسی لوگ پیش بینی کررہے تھے کہ حکومت علی کو نہیں ملے گی اور حضرت علی کو کمیٹی کے جلسہ میں شرکت کرنے کو منع کررہے تھے ۔
طبری کے بقول ابن عباس نے حضرت علی سے کہا: اس کمیٹی میں نہ جاؤ، حضرت علی نے جواب دیا: میں نہیں چاہتاکہ میری طرف سے کوئی مخالفت ظاہر ہو۔
ابن عباس نے کہا: اذاتری ماتکرہ۔ ایسی صورت میں جو تمہارے لئے بہتر نہیں ہے اس کو دیکھوگے(٥) ۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے آپ کو اس خلافت وامامت کے منصب کے لایق دیکھ رہے تھے اس لئے آپ نے جلسہ میں شرکت کی اور دلائل کے ذریعہ آپ نے اپنے حق کو ثابت کیالیکن انہوں نے اپنی منظم سازش کی بناء پر لوگوں کو علی (علیہ السلام) کی رہبری سے محروم کردیا ۔
اس کے علاوہ حضرت علی نہیںچاہتے تھے کہ آپ کو مخالفت سے متہم کیا جائے اور لوگ نہ کہیں کہ اگر حضرت علی اس کمیٹی میںشرکت کرتے تو ان کو ان کاحق مل جاتا اس وجہ سے آپ نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ جلسہ میں شرکت کی جائے ۔
دوم : تعجب کی بات نہیں کہ عمرنے ایسی کمیٹی منظم کی تھی جس میں ہرحال میں خلیفہ عثمان ہی کو بننا تھاکیونکہ عثمان نے (ابوبکر کے بعد)عمر کو خلیفہ بنا نے میں بہت زیادہ کام کیا تھا ۔
مشہور مؤرخ ابن اثیر کہتا ہے: ابوبکر نے حالت احضار میں عثمان کو بلایا تاکہ خلافت کے متعلق وصیت لکھ سکے لہذا اس سے کہا:لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ وصیت ہے جو ابوبکر نے مسلمانوں کی ہے امابعد…
ابوبکر اسی حالت میں بیہوش ہوگیا لیکن عثمان نے خود یہ جملہ لکھ دیا: اما بعد فانی قد استخلفت علیکم عمربن الخطاب ولم الکم خیرا ۔ میں نے عمربن خطاب کو تم پر خلیفہ بنا دیا اور تمہارے لئے کوئی بھی اچھائی اور برائی کو باقی نہیں چھوڑا!
جب عثمان نے یہ جملہ لکھ دیا تو ابوبکر ہوش میں آگیا اور کہا: پڑھو ، اس نے پڑھا ۔ ابوبکر نے تکبیر کہی! اور اس کے بعد اضافہ کیا:میں سمجھتا ہوں(کہ تم نے جلدی میں خلافت کے لئے عمرکا نام اس لئے لکھ دیا)کہ تم ڈر گئے کہ اگر میں ہوش میں نہ آؤں او رمرجاؤں تو لوگ اختلاف کریں گے ۔ عثمان نے کہا: جی ہاں! ایسا ہی تھا ۔ ابوبکر نے اس کے حق میں دعا کی!(٦) ۔
واقعا اس سے بڑھ کر اور کیا خدمت ہوسکتی تھی؟!(٧) ۔
سعد بن ابی وقاص کی ماں بھی بنی امیہ سے تھی اور اس کے ماموں اور دوسرے رشتہ دار اسلام اور کفر کی جنگ میں حضرت علی کے ہاتھوں سے قتل ہوچکے تھے اور اسی وجہ سے اس نے حضرت علی کی خلافت کے زمانے میں بھی آپ کی بیعت نہیں کی تھی اور عمربن سعد جس نے کربلا اور عاشور کے واقعہ میں امام حسین کو شہید کیاوہ اسی کا بیٹا تھا اس وجہ سے حضرت علی سے بغض وحسد اس کے اندر زیادہ پایا جاتا تھااور اسی وجہ سے وہ حضرت علی کی طرف مایل نہیں تھا ۔ عبدالرحمن بن عوف، عثمان کا داماد تھا کیونکہ وہ ام کلثوم، عثمان کی بہن کا شوہر تھا ۔
لہذا فقط زبیر جو حضرت علی کو پسند کرتاتھا حضرت علی کی طرف آگیا اور دوسرے ووٹ عثمان کی طرف چلے گئے ۔
حضرت علی نے خطلبہ شقشقیہ(نہج البلاغہ کاتیسرا خطبہ)میں اس واقعہ کو خلاصہ کے طورپر بیان کیا ہے، آپ نے فرمایا:
فصغا رجل منھم لضغنہ ومال لآخر لصہرہ مع ھن وھن۔ان میں سے ایک شخص تو کینہ و دشمنی کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسرا دامادی اور بعض نا گفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر (عثمان کی طرف)جھک گیا(١) ۔
اس کے علاوہ عمر نے وضاحت کے ساتھ طلحہ، سعدبن ابی وقاص اور عبدالرحمن کے عیب گنوادئیے تھے جو اس بات پرگواہ ہے کہ یہ لوگ خلافت کے مستحق نہیں تھے ۔
طلحہ کے متعلق کہا: رسول خدا آیة حجاب کے واقعہ کی وجہ سے اس سے ناراض تھے(٢) ۔
سعدبن ابی وقاص سے کہا: تم جنگجو ہو لہذا خلافت اورلوگوں کے کام تمہارے بس کی بات نہیں ہے(٣) ۔
عبدالرحمن بن عوف سے کہا : تم ضعیف مرد ہو اور تمہارے جیسا ضعیف آدمی اس منصب کے لائق نہیں ہے(٤)
وہ ان باتوں کے ذریعہ فقط حضرت علی اور عثمان کو ووٹ دے رہاتھاکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو قبول کرنالیکن اس میں بھی اس نے عثمان کو زیادہ خلافت کا مستحق بتایا ۔
شاید اسی وجہ سے سیاسی لوگ پیش بینی کررہے تھے کہ حکومت علی کو نہیں ملے گی اور حضرت علی کو کمیٹی کے جلسہ میں شرکت کرنے کو منع کررہے تھے ۔
طبری کے بقول ابن عباس نے حضرت علی سے کہا: اس کمیٹی میں نہ جاؤ، حضرت علی نے جواب دیا: میں نہیں چاہتاکہ میری طرف سے کوئی مخالفت ظاہر ہو۔
ابن عباس نے کہا: اذاتری ماتکرہ۔ ایسی صورت میں جو تمہارے لئے بہتر نہیں ہے اس کو دیکھوگے(٥) ۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے آپ کو اس خلافت وامامت کے منصب کے لایق دیکھ رہے تھے اس لئے آپ نے جلسہ میں شرکت کی اور دلائل کے ذریعہ آپ نے اپنے حق کو ثابت کیالیکن انہوں نے اپنی منظم سازش کی بناء پر لوگوں کو علی (علیہ السلام) کی رہبری سے محروم کردیا ۔
اس کے علاوہ حضرت علی نہیںچاہتے تھے کہ آپ کو مخالفت سے متہم کیا جائے اور لوگ نہ کہیں کہ اگر حضرت علی اس کمیٹی میںشرکت کرتے تو ان کو ان کاحق مل جاتا اس وجہ سے آپ نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ جلسہ میں شرکت کی جائے ۔
دوم : تعجب کی بات نہیں کہ عمرنے ایسی کمیٹی منظم کی تھی جس میں ہرحال میں خلیفہ عثمان ہی کو بننا تھاکیونکہ عثمان نے (ابوبکر کے بعد)عمر کو خلیفہ بنا نے میں بہت زیادہ کام کیا تھا ۔
مشہور مؤرخ ابن اثیر کہتا ہے: ابوبکر نے حالت احضار میں عثمان کو بلایا تاکہ خلافت کے متعلق وصیت لکھ سکے لہذا اس سے کہا:لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ وصیت ہے جو ابوبکر نے مسلمانوں کی ہے امابعد…
ابوبکر اسی حالت میں بیہوش ہوگیا لیکن عثمان نے خود یہ جملہ لکھ دیا: اما بعد فانی قد استخلفت علیکم عمربن الخطاب ولم الکم خیرا ۔ میں نے عمربن خطاب کو تم پر خلیفہ بنا دیا اور تمہارے لئے کوئی بھی اچھائی اور برائی کو باقی نہیں چھوڑا!
جب عثمان نے یہ جملہ لکھ دیا تو ابوبکر ہوش میں آگیا اور کہا: پڑھو ، اس نے پڑھا ۔ ابوبکر نے تکبیر کہی! اور اس کے بعد اضافہ کیا:میں سمجھتا ہوں(کہ تم نے جلدی میں خلافت کے لئے عمرکا نام اس لئے لکھ دیا)کہ تم ڈر گئے کہ اگر میں ہوش میں نہ آؤں او رمرجاؤں تو لوگ اختلاف کریں گے ۔ عثمان نے کہا: جی ہاں! ایسا ہی تھا ۔ ابوبکر نے اس کے حق میں دعا کی!(٦) ۔
واقعا اس سے بڑھ کر اور کیا خدمت ہوسکتی تھی؟!(٧) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.