مختصر جواب:
مفصل جواب:
قرآن کریم بہت ہی صراحت کے ساتھ اس فریضہ الہی کو دوسرے ادیان میں بیان کرتا ہے (١) اور گزشتہ قوموں پر بھی واجب تھا اورآج بھی عہد عتیق اور عہد جدید کی کتابوں میں روزہ سے متعلق مطالب موجود ہیں ،یہاں پر ان کے چند فراز کو ذکر کرتے ہیں :
١۔ ہر گروہ اور ہر قوم میں غیر مترقبہ زحمت اور غم و اندوھ کے وقت روزہ رائج تھا (پولس ، ٥ : ٣) ۔
٢۔ حضرت موسی نے چالیس روز روزہ رکھا تھا ۔ (سفر تثنیہ ، ٩: ٩ ) ۔
٣۔ قوم یہود کو جب خضوع کو اظہار کرنے کا وقت ملتا تھا تو وہ روزہ رکھتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ اللہ کی مرضی کو حاصل کرسکیں ۔ (سفر داوران ٢٦ : ٢٠)۔
٤۔ حضرت عیسی نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ ان کی وفات کے بعد روزہ رکھیں (انجیل لوقا ، ٣٤ : ٥ ) ۔
یہ چند جملے کتب عہدین کے تھے ، زیادہ تفصیل جاننے کے لئے کتاب قاموس کتاب مقدس کے صفحہ ٤٣٧ تا ٤٣٨ پر مراجعہ فرمائیں (٢) ۔
1. سوره بقره، آیه 183.
2. گرد آوري از کتاب: پاسخ به پرسش های مذهبی، آیات عظام مکارم شیرازی و جعفر سبحانی، مدرسة الإمام علی بن أبی طالب(ع)، چاپ دوم، ص 434.
روزہ کے احکام
سوال : اسلام میں روزہ کا حکم کیا ہے ؟
جواب : اس سوال کا جواب سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٨٣ تا ١٨٥ میں بیان ہوا ہے ، خداوند عالم ان آیات میں ایک اہم ترین عبادت کو بیان کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ
فرماتا ہے : صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوںپر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ ۔
» یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَما کُتِبَ عَلَی الَّذینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ » ۔
اور پھر بلا فاصلہ اس انسان ساز اور تربیت کرنے والی عبادت کے فلسفہ کو ایک مختصرجملہ میں اس طرح بیان کرتا ہے : تاکہ پرہیزگار ہوجائو ۔ » لعلکم تتقون » ۔
جی ہاں ، تمام ابعاد میں پرہیزگاری اور روح تقوی کی پرورش کے لئے روزہ بہت ہی موثر ہے ، کیونکہ اس عبادت میں مادی لذتوں سے محرومیت اور بہت سی مشکلات (خاص طور سے گرمی کی فصل میں ) کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لہذا مذکورہ آیت میں مختلف تعبیرات بیان ہوئی ہیں تاکہ انسان کی روح اس حکم کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوجائے ۔
سب سے پہلے لوگوں کو مومنین کے خطاب سے نوازا ! » یا ایھا الذین آمنوا » ۔
پھر اس حقیقت کو بیان کیا کہ روزہ صرف تم ہی لوگوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ گزشتہ امتوں پر بھی روزہ واجب تھا ۔
اور آخر میں اس کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس الہی فریضہ کے اچھے اثرات و فوائد تمہاری طرف پلٹتے ہیں ۔
ایک حدیث میں امام صادق (علیہ السلام) سے نقل ہوا ہے : : لَذَّةُ ما فِى النِّداءِ أَزالَ تَعَبَ الْعِبادَةِ وَ الْعَناءِ .
» یا ایھاالذین آمنوا » کے خطاب کی لذت اس قدر زیادہ ہے کہ اس سے تمام سختیاں اورمشکلات ختم ہوگئی ہیں !
دوسری آیت میں روزہ کی سختی کو کم کرنے کے لئے اس سلسلہ میں دوسرے احکام صادر کئے ، پہلے فرمایا :
چند دن روزہ رکھو ۔ »ایاما معدودات » ۔
ایسا نہیں ہے کہ تم پورے سال یا سال کے ایک حصہ میں روزہ رکھنے پر مجبور ہو بلکہ سال کے ایک مختصر حصہ میں روزہ واجب ہے ۔
دوسرے : تم میں سے جو لوگ بیمار یا مسافر ہوں اور ان کے لئے روزہ رکھنا مشقت کا باعث ہو تو وہ اس حکم سے معاف ہیں اور اس کے بجائے وہ دوسرے ایام میں روزہ رکھیں » فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدة من ایام اخر» ۔
تیسرے : اور جو لوگ صرف شدت اور مشقت کی بناء پر روزے نہیں رکھ سکتے ہیں(جیسے بوڑھے مرد، بوڑھی عورتیں ،ہمیشہ بیمار رہنے والے جنہیں بیماری سے افاقہ نہیں ہوتا) وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اور اگر اپنی طرف سے زیادہ نیکی کردیں تو اور بہتر ہے » و علی الذین یطیقونہ فدیة طعام مسکین » ۔
اگر چہ بعض لوگوں نے اس جملہ کو اس بات پر دلیل بنانے کی کوشش کی ہے کہ روزہ شروع میں واجب تخیری تھا اور مسلمانوں کو اختیار تھا چاہے روزہ رکھیں اور چاہے روزہ کے بجائے »فدیہ » دیدیں تاکہ آہستہ آہستہ لوگوں کو روزہ رکھنے کی عادت ہوجائے ،بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور اس کو واجب عینی کی شکل دیدی گئی ۔
لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ جملہ روزہ کے فلسفہ پر ایک تاکید ہے اور وہ تاکید یہ ہے کہ یہ عبادت (دوسری تمام عبادتوں کی طرح ) خداوند عالم کے جاہ وجلال میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتی بلکہ اس کا تمام فائدہ عبادت کرنے والوں کی طرف پلٹتا ہے ۔
اس بات کی گواہ قرآن مجید کی دوسری آیتیں ہیںجیسے : »ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون » ۔یہ آیت نماز جمعہ کے واجب ہونے کے بعد ذکر ہوئی ہے ۔
سورہ عنکبوت کی ١٦ ویں آیت میں بیان ہوا ہے : » و ابراھیم اذ قال لقومہ اعبدوا اللہ و اتقوہ ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون » ۔ انہوں نے بت پرستوں سے کہا : تم خدا کی عبادت کرو اور اللہ تقوائے الہی اختیار کرو یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھ جائو ۔
اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ جملہ : » ان تصوموا خیر لکم » تمام روزہ رکھنے والوں سے مخاطب ہے ، کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہے ۔ اس سلسلہ کی آخری آیت روزہ کے زمانہ ، اس کے بعض احکام اور فلسفہ کی شرح کررہی ہے ، اس آیت میں پہلے خداوند عالم فرماتا ہے : جن چند ایام میں روزہ واجب ہے وہ چند ایام ماہ رمضان ہے ۔»شھر رمضان » ۔
وہی مہینہ جس میں قرآں کریم نازل ہوا ہے : »الذی انزل فیہ القرآن » ۔
یہ وہی قرآن ہے جو لوگوں کی ہدایت کا سبب ہے اس میں ہدایت کی نشانیاں اور حق و باطل کو پہچاننے کا معیار ہے » ھدی للناس و بینات من الھدی والفرقان» ۔
پھر دوبارہ مسافروں اور بیماروں کے حکم کو تاکید کے عنوان سے بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : جو لوگ ماہ رمضان میں سفر میں نہ ہوں وہ روزہ رکھیں لیکن جو لوگ بیمار یا مسافر ہیں وہ رمضان کے بجائے دوسرے ایام میں روزہ رکھیں » فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ و من کان مریضا اوعلی سفر فعدة من ایام اخر » ۔
اس آیت اور اس سے پہلی والی آیت میں مسافر اور بیمار کے حکم کی تکرار شاید اس وجہ سے ہو کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ مطلق طور پر روزہ نہ رکھنا اچھا کام نہیں ہے ، لہذا قرآن کریم اس حکم کو بار بار بیان کرکے مسلمانوں کو سمجھانا چاہتا ہے کہ جس طرح صحیح و سالم افراد کے لئے روزہ رکھنا ایک الہی فریضہ ہے اسی طرح بیماروں اور مسافروں کے لئے روزہ نہ رکھنا بھی ایک الہی فرمان ہے جس کی مخالفت گناہ ہے ۔
آیت کے دوسرے حصہ میں ایک مرتبہ پھر روزہ کو واجب کرنے کے فلسفہ کو بیان کیا گیا ہے ، خداوند عالم فرماتا ہے : خداوند عالم تمہیں آسانی دیتا ہے اور تمہیں زحمت نہیں دینا چاہتا » یرید اللہ بکم الیسر و لا یرید بکم العسر» ۔
اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر چہ ظاہری طور پر روزہ رکھنا ایک قسم کی سختی اور محدودیت ہے لیکن وہ مادی اور معنوی لحاظ سے انسان کی آسانی اور سکون چاہتا ہے (جیسا کہ روزہ کے فلسفہ کی بحث میں بیان ہوگا ) ۔
ممکن ہے کہ یہ جملہ اس نکتہ کی طرف اشارہ کررہا ہو :خدا کا حکم ، ظالم بادشاہوں کے حکم کی طرح نہیں ہے بلکہ جن جگہوں پر اس کو انجام دینا مشقت کا باعث ہو وہاں پر آسان وظیفہ بتاتا ہے ، لہذا روزہ کے حکم کو اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ، بیماروں ، مسافروں اور کمزور افراد سے اٹھا لیا گیا ہے ۔
پھر مزید فرماتا ہے : ہدف یہ ہے کہ تم ان ایام کی مدت کو پورا کرو ۔
یعنی ہر صحیح و سالم انسان کے لئے ضروری ہے کہ پورے سال میں ایک ماہ روزے رکھے کیونکہ یہ کام اس کی روح و جان کی پرورش کے لئے ضروری ہے ، اسی وجہ سے اگر ماہ رمضان میں بیمار ہو یا سفر میں تو ان دنوں کے روزوں کی قضا کرو تاکہ مذکورہ تعداد پوری ہوجائے ، یہاں تک کہ حائض عورتوں کی قضا نماز معاف ہے لیکن روزوں کی قضا کی معافی نہیں ہے ۔
آخری جملہ میں فرماتا ہے : اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اقرار کرو اور شاید تم اس طرح اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ ۔ »وَ لِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلی ما ہَداکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ » ۔
جی ہاں ، آپ لوگ اس ہدایت کی وجہ سے پروردگار عالم کی تعظیم کرو اور ان تمام نعمتوں کے بدلے جو تمہیں دی گئی ہیں ، اس کا شکریہ ادا کرو ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ شکر گزاری کے مسئلہ کو کلمہ »لعل» کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن پروردگار عالم کی بزرگی کے مسئلہ کو قطعی طور پر ذکر کیا ہے یہ مختلف تعبیریں اس وجہ سے ہوسکتی ہیں کہ ان تمام عبادتوں کا انجام دینا ہر حال میں پروردگار عالم کی تعظیم ہے ، لیکن شکر کے جو کہ نعمتوں کو ان کی جگہ پر استعمال کرنا اور روزہ کے علمی فلسفہ اور اس کے آثار سے فائدہ اٹھانا ہے ، کچھ شرایط ہیں ، جب تک وہ شرایط حاصل نہیں ہوں گے اس وقت تک شکر نہیں ہوگا اور سب سے اہم شرایط ، کامل اخلاص، وزہ کی حقیقت سے آشنائی اور اس کے فلسفہ سے آشنائی حاصل کرنا ہے (٢) ۔
١۔ ہر گروہ اور ہر قوم میں غیر مترقبہ زحمت اور غم و اندوھ کے وقت روزہ رائج تھا (پولس ، ٥ : ٣) ۔
٢۔ حضرت موسی نے چالیس روز روزہ رکھا تھا ۔ (سفر تثنیہ ، ٩: ٩ ) ۔
٣۔ قوم یہود کو جب خضوع کو اظہار کرنے کا وقت ملتا تھا تو وہ روزہ رکھتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ اللہ کی مرضی کو حاصل کرسکیں ۔ (سفر داوران ٢٦ : ٢٠)۔
٤۔ حضرت عیسی نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ ان کی وفات کے بعد روزہ رکھیں (انجیل لوقا ، ٣٤ : ٥ ) ۔
یہ چند جملے کتب عہدین کے تھے ، زیادہ تفصیل جاننے کے لئے کتاب قاموس کتاب مقدس کے صفحہ ٤٣٧ تا ٤٣٨ پر مراجعہ فرمائیں (٢) ۔
1. سوره بقره، آیه 183.
2. گرد آوري از کتاب: پاسخ به پرسش های مذهبی، آیات عظام مکارم شیرازی و جعفر سبحانی، مدرسة الإمام علی بن أبی طالب(ع)، چاپ دوم، ص 434.
روزہ کے احکام
سوال : اسلام میں روزہ کا حکم کیا ہے ؟
جواب : اس سوال کا جواب سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٨٣ تا ١٨٥ میں بیان ہوا ہے ، خداوند عالم ان آیات میں ایک اہم ترین عبادت کو بیان کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ
فرماتا ہے : صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوںپر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ ۔
» یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَما کُتِبَ عَلَی الَّذینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ » ۔
اور پھر بلا فاصلہ اس انسان ساز اور تربیت کرنے والی عبادت کے فلسفہ کو ایک مختصرجملہ میں اس طرح بیان کرتا ہے : تاکہ پرہیزگار ہوجائو ۔ » لعلکم تتقون » ۔
جی ہاں ، تمام ابعاد میں پرہیزگاری اور روح تقوی کی پرورش کے لئے روزہ بہت ہی موثر ہے ، کیونکہ اس عبادت میں مادی لذتوں سے محرومیت اور بہت سی مشکلات (خاص طور سے گرمی کی فصل میں ) کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لہذا مذکورہ آیت میں مختلف تعبیرات بیان ہوئی ہیں تاکہ انسان کی روح اس حکم کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوجائے ۔
سب سے پہلے لوگوں کو مومنین کے خطاب سے نوازا ! » یا ایھا الذین آمنوا » ۔
پھر اس حقیقت کو بیان کیا کہ روزہ صرف تم ہی لوگوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ گزشتہ امتوں پر بھی روزہ واجب تھا ۔
اور آخر میں اس کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس الہی فریضہ کے اچھے اثرات و فوائد تمہاری طرف پلٹتے ہیں ۔
ایک حدیث میں امام صادق (علیہ السلام) سے نقل ہوا ہے : : لَذَّةُ ما فِى النِّداءِ أَزالَ تَعَبَ الْعِبادَةِ وَ الْعَناءِ .
» یا ایھاالذین آمنوا » کے خطاب کی لذت اس قدر زیادہ ہے کہ اس سے تمام سختیاں اورمشکلات ختم ہوگئی ہیں !
دوسری آیت میں روزہ کی سختی کو کم کرنے کے لئے اس سلسلہ میں دوسرے احکام صادر کئے ، پہلے فرمایا :
چند دن روزہ رکھو ۔ »ایاما معدودات » ۔
ایسا نہیں ہے کہ تم پورے سال یا سال کے ایک حصہ میں روزہ رکھنے پر مجبور ہو بلکہ سال کے ایک مختصر حصہ میں روزہ واجب ہے ۔
دوسرے : تم میں سے جو لوگ بیمار یا مسافر ہوں اور ان کے لئے روزہ رکھنا مشقت کا باعث ہو تو وہ اس حکم سے معاف ہیں اور اس کے بجائے وہ دوسرے ایام میں روزہ رکھیں » فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدة من ایام اخر» ۔
تیسرے : اور جو لوگ صرف شدت اور مشقت کی بناء پر روزے نہیں رکھ سکتے ہیں(جیسے بوڑھے مرد، بوڑھی عورتیں ،ہمیشہ بیمار رہنے والے جنہیں بیماری سے افاقہ نہیں ہوتا) وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اور اگر اپنی طرف سے زیادہ نیکی کردیں تو اور بہتر ہے » و علی الذین یطیقونہ فدیة طعام مسکین » ۔
اگر چہ بعض لوگوں نے اس جملہ کو اس بات پر دلیل بنانے کی کوشش کی ہے کہ روزہ شروع میں واجب تخیری تھا اور مسلمانوں کو اختیار تھا چاہے روزہ رکھیں اور چاہے روزہ کے بجائے »فدیہ » دیدیں تاکہ آہستہ آہستہ لوگوں کو روزہ رکھنے کی عادت ہوجائے ،بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور اس کو واجب عینی کی شکل دیدی گئی ۔
لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ جملہ روزہ کے فلسفہ پر ایک تاکید ہے اور وہ تاکید یہ ہے کہ یہ عبادت (دوسری تمام عبادتوں کی طرح ) خداوند عالم کے جاہ وجلال میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتی بلکہ اس کا تمام فائدہ عبادت کرنے والوں کی طرف پلٹتا ہے ۔
اس بات کی گواہ قرآن مجید کی دوسری آیتیں ہیںجیسے : »ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون » ۔یہ آیت نماز جمعہ کے واجب ہونے کے بعد ذکر ہوئی ہے ۔
سورہ عنکبوت کی ١٦ ویں آیت میں بیان ہوا ہے : » و ابراھیم اذ قال لقومہ اعبدوا اللہ و اتقوہ ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون » ۔ انہوں نے بت پرستوں سے کہا : تم خدا کی عبادت کرو اور اللہ تقوائے الہی اختیار کرو یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھ جائو ۔
اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ جملہ : » ان تصوموا خیر لکم » تمام روزہ رکھنے والوں سے مخاطب ہے ، کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہے ۔ اس سلسلہ کی آخری آیت روزہ کے زمانہ ، اس کے بعض احکام اور فلسفہ کی شرح کررہی ہے ، اس آیت میں پہلے خداوند عالم فرماتا ہے : جن چند ایام میں روزہ واجب ہے وہ چند ایام ماہ رمضان ہے ۔»شھر رمضان » ۔
وہی مہینہ جس میں قرآں کریم نازل ہوا ہے : »الذی انزل فیہ القرآن » ۔
یہ وہی قرآن ہے جو لوگوں کی ہدایت کا سبب ہے اس میں ہدایت کی نشانیاں اور حق و باطل کو پہچاننے کا معیار ہے » ھدی للناس و بینات من الھدی والفرقان» ۔
پھر دوبارہ مسافروں اور بیماروں کے حکم کو تاکید کے عنوان سے بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : جو لوگ ماہ رمضان میں سفر میں نہ ہوں وہ روزہ رکھیں لیکن جو لوگ بیمار یا مسافر ہیں وہ رمضان کے بجائے دوسرے ایام میں روزہ رکھیں » فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ و من کان مریضا اوعلی سفر فعدة من ایام اخر » ۔
اس آیت اور اس سے پہلی والی آیت میں مسافر اور بیمار کے حکم کی تکرار شاید اس وجہ سے ہو کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ مطلق طور پر روزہ نہ رکھنا اچھا کام نہیں ہے ، لہذا قرآن کریم اس حکم کو بار بار بیان کرکے مسلمانوں کو سمجھانا چاہتا ہے کہ جس طرح صحیح و سالم افراد کے لئے روزہ رکھنا ایک الہی فریضہ ہے اسی طرح بیماروں اور مسافروں کے لئے روزہ نہ رکھنا بھی ایک الہی فرمان ہے جس کی مخالفت گناہ ہے ۔
آیت کے دوسرے حصہ میں ایک مرتبہ پھر روزہ کو واجب کرنے کے فلسفہ کو بیان کیا گیا ہے ، خداوند عالم فرماتا ہے : خداوند عالم تمہیں آسانی دیتا ہے اور تمہیں زحمت نہیں دینا چاہتا » یرید اللہ بکم الیسر و لا یرید بکم العسر» ۔
اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر چہ ظاہری طور پر روزہ رکھنا ایک قسم کی سختی اور محدودیت ہے لیکن وہ مادی اور معنوی لحاظ سے انسان کی آسانی اور سکون چاہتا ہے (جیسا کہ روزہ کے فلسفہ کی بحث میں بیان ہوگا ) ۔
ممکن ہے کہ یہ جملہ اس نکتہ کی طرف اشارہ کررہا ہو :خدا کا حکم ، ظالم بادشاہوں کے حکم کی طرح نہیں ہے بلکہ جن جگہوں پر اس کو انجام دینا مشقت کا باعث ہو وہاں پر آسان وظیفہ بتاتا ہے ، لہذا روزہ کے حکم کو اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ، بیماروں ، مسافروں اور کمزور افراد سے اٹھا لیا گیا ہے ۔
پھر مزید فرماتا ہے : ہدف یہ ہے کہ تم ان ایام کی مدت کو پورا کرو ۔
یعنی ہر صحیح و سالم انسان کے لئے ضروری ہے کہ پورے سال میں ایک ماہ روزے رکھے کیونکہ یہ کام اس کی روح و جان کی پرورش کے لئے ضروری ہے ، اسی وجہ سے اگر ماہ رمضان میں بیمار ہو یا سفر میں تو ان دنوں کے روزوں کی قضا کرو تاکہ مذکورہ تعداد پوری ہوجائے ، یہاں تک کہ حائض عورتوں کی قضا نماز معاف ہے لیکن روزوں کی قضا کی معافی نہیں ہے ۔
آخری جملہ میں فرماتا ہے : اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اقرار کرو اور شاید تم اس طرح اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ ۔ »وَ لِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلی ما ہَداکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ » ۔
جی ہاں ، آپ لوگ اس ہدایت کی وجہ سے پروردگار عالم کی تعظیم کرو اور ان تمام نعمتوں کے بدلے جو تمہیں دی گئی ہیں ، اس کا شکریہ ادا کرو ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ شکر گزاری کے مسئلہ کو کلمہ »لعل» کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن پروردگار عالم کی بزرگی کے مسئلہ کو قطعی طور پر ذکر کیا ہے یہ مختلف تعبیریں اس وجہ سے ہوسکتی ہیں کہ ان تمام عبادتوں کا انجام دینا ہر حال میں پروردگار عالم کی تعظیم ہے ، لیکن شکر کے جو کہ نعمتوں کو ان کی جگہ پر استعمال کرنا اور روزہ کے علمی فلسفہ اور اس کے آثار سے فائدہ اٹھانا ہے ، کچھ شرایط ہیں ، جب تک وہ شرایط حاصل نہیں ہوں گے اس وقت تک شکر نہیں ہوگا اور سب سے اہم شرایط ، کامل اخلاص، وزہ کی حقیقت سے آشنائی اور اس کے فلسفہ سے آشنائی حاصل کرنا ہے (٢) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.