مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس نے آپ کے فضائل سے متعلق یہ اشعارپڑھے ہیں:
1 ـ ثمّ السلامُ من السلامِ على الّذي نُصبت له في خمّ راياتُ الولا
2 ـ تالي كتابِ اللهِ أكرمِ من تلا وأجلِّ من للمصطفى الهادي تلا
3 ـ وصعودُ غاربِ أحمد فضلٌ له دونَ القرابةِ والصحابةِ أفضلا
4 ـ هذا الّذي حاز العلومَ بأسرِها ما كان منها مجملاً ومفصّلا
5 ـ هذا الّذي بصَلاتِه وصِلاتِه للدينِ والدنيا أتمّ وأكملا
6 ـ هذا الّذي بحسامِه وقناتِه في خيبر صعبُ الفتوحِ تسهّلا
۱۔ پھر اس کے بعد سلام(خداکے ناموں میں سے ایک نام)کا سلام ہو اس شخص پر جس کو غدیر خم کے روز ولایت کا پرچم عطا کیا گیا۔
۲۔ وہ خدا کی کتاب کا قاری اور بہترین قاری ہے اور وہ پیغمبر اکرم کا منتخب کردہ سب سے بڑا جانشین اور ہدایت کرنے والا ہے۔
۳۔ احمد کے کندھوں پر کھڑے ہونے والے کیلئے رشتہ داری اور صحابیت کے علاوہ یہ ایک دیگربہت بڑی فضیلت ہے۔
۴۔ وہ ایسا شخص ہے کہ تمام علوم اس کے اندر جمع ہوگئے ہیں چاہے وہ مجمل کا علم ہو یا مفصل کا ۔
۵۔ وہ نماز اور دین و دنیا کی خدمت کی وجہ سے کامل ترین اور بہترین انسان ہے۔
۶۔ اس نے اپنی تیز شمشیر اور نیزہ سے خیبر کے روز سخت ترین فتح کو آسانی میںبدل دیا(۱)۔
اس نے اس قصیدہ میں امیرالمومنین(علیہ السلام) کے بہت سے مناقب و فضائل کو بیان کیا ہے ۔ ہم یہاںپر اس شعر میں جو کچھ کہا ہے اس کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:
وصعودُ غاربِ أحمد فضلٌ له دون القرابة والصحابةِ أفضلا
جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل ہوا ہے : ہم جس وقت پیغمبر اکرم کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اطراف میں ۳۶۰ بت موجود تھے۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ)نے حکم دیا کہ ان تمام بتوں کو گرا دو ۔ اور کعبہ کی چھت پر ایک بہت بڑا بت جس کا نام ھبل تھا موجود تھا۔ آنحضرت نے حضرت علی(علیہ السلام)کی طرف دیکھا اور ان سے فرمایا: یا علی ترکب علی او ارکب علیک لالقی ھبل عن ظھر الکعبة؟۔ اے علی ! تم میرے دوش پر کھڑے ہو تے ہو یا میں تمہارے دوش پر کھڑا ہو جاؤں تاکہ ھبل بت کو خانہ کعبہ کی چھت سے نیچے گرادوں۔حضرت علی علیہ السلام نے کہا : یا رسول اللہ ! بل ترکبنی ۔(اے پیغمبر خدا آپ میرے دوش پر سوار ہوجائیے ) ۔ جس وقت پیغمبر اکرم میرے دوش پر کھڑے ہوگئے تو میں رسالت کے سنگین بوجھ کو تحمل نہ کرسکا۔ عرض کیا : اے رسول خدا اجازت دیجئے میں آپ کے دوش پر سوار ہوجاؤں ، آنحضرت مسکرائے اور میرے دوش سے نیچے آگئے اور اپنی کمر کو جھکایا اور میں آنحضرت کے دوش پر سوار ہوگیا۔ اور اس خدا کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور انسان کو پیدا کیا اگر میں چاہتا تو آسمان کو چھو سکتا تھا، پھر میں نے ھبل کو کعبہ کی چھت سے نیچے گرایا اور اس کے بعد خدا وند عالم نے اس آیت کو ناز ل کیا ”و قل جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا“(۱)۔ اور کہو : حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا، یقینا باطل کو نابود ہی ہونا تھا۔
اس روایت کو حافظان قرآن، آئمہ حدیث اورتاریخ کے ایک گروہ نے نقل کیا ہے اور بعد کی صدیوں میں بھی مصنفین نے اس سے اخذ کیا ہے اور اپنی کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے اور اس کی سند میں کسی خدشہ کے بغیر اس کو آنکھیں بند کرکے سب نے قبول کیا ہے۔
علامہ امینی (رحمہ اللہ) نے الغدیر (۲) میں اکتالیس ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس روایت کو نقل کیا ہے(۳)۔
1 ـ ثمّ السلامُ من السلامِ على الّذي نُصبت له في خمّ راياتُ الولا
2 ـ تالي كتابِ اللهِ أكرمِ من تلا وأجلِّ من للمصطفى الهادي تلا
3 ـ وصعودُ غاربِ أحمد فضلٌ له دونَ القرابةِ والصحابةِ أفضلا
4 ـ هذا الّذي حاز العلومَ بأسرِها ما كان منها مجملاً ومفصّلا
5 ـ هذا الّذي بصَلاتِه وصِلاتِه للدينِ والدنيا أتمّ وأكملا
6 ـ هذا الّذي بحسامِه وقناتِه في خيبر صعبُ الفتوحِ تسهّلا
۱۔ پھر اس کے بعد سلام(خداکے ناموں میں سے ایک نام)کا سلام ہو اس شخص پر جس کو غدیر خم کے روز ولایت کا پرچم عطا کیا گیا۔
۲۔ وہ خدا کی کتاب کا قاری اور بہترین قاری ہے اور وہ پیغمبر اکرم کا منتخب کردہ سب سے بڑا جانشین اور ہدایت کرنے والا ہے۔
۳۔ احمد کے کندھوں پر کھڑے ہونے والے کیلئے رشتہ داری اور صحابیت کے علاوہ یہ ایک دیگربہت بڑی فضیلت ہے۔
۴۔ وہ ایسا شخص ہے کہ تمام علوم اس کے اندر جمع ہوگئے ہیں چاہے وہ مجمل کا علم ہو یا مفصل کا ۔
۵۔ وہ نماز اور دین و دنیا کی خدمت کی وجہ سے کامل ترین اور بہترین انسان ہے۔
۶۔ اس نے اپنی تیز شمشیر اور نیزہ سے خیبر کے روز سخت ترین فتح کو آسانی میںبدل دیا(۱)۔
اس نے اس قصیدہ میں امیرالمومنین(علیہ السلام) کے بہت سے مناقب و فضائل کو بیان کیا ہے ۔ ہم یہاںپر اس شعر میں جو کچھ کہا ہے اس کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:
وصعودُ غاربِ أحمد فضلٌ له دون القرابة والصحابةِ أفضلا
جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل ہوا ہے : ہم جس وقت پیغمبر اکرم کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اطراف میں ۳۶۰ بت موجود تھے۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ)نے حکم دیا کہ ان تمام بتوں کو گرا دو ۔ اور کعبہ کی چھت پر ایک بہت بڑا بت جس کا نام ھبل تھا موجود تھا۔ آنحضرت نے حضرت علی(علیہ السلام)کی طرف دیکھا اور ان سے فرمایا: یا علی ترکب علی او ارکب علیک لالقی ھبل عن ظھر الکعبة؟۔ اے علی ! تم میرے دوش پر کھڑے ہو تے ہو یا میں تمہارے دوش پر کھڑا ہو جاؤں تاکہ ھبل بت کو خانہ کعبہ کی چھت سے نیچے گرادوں۔حضرت علی علیہ السلام نے کہا : یا رسول اللہ ! بل ترکبنی ۔(اے پیغمبر خدا آپ میرے دوش پر سوار ہوجائیے ) ۔ جس وقت پیغمبر اکرم میرے دوش پر کھڑے ہوگئے تو میں رسالت کے سنگین بوجھ کو تحمل نہ کرسکا۔ عرض کیا : اے رسول خدا اجازت دیجئے میں آپ کے دوش پر سوار ہوجاؤں ، آنحضرت مسکرائے اور میرے دوش سے نیچے آگئے اور اپنی کمر کو جھکایا اور میں آنحضرت کے دوش پر سوار ہوگیا۔ اور اس خدا کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور انسان کو پیدا کیا اگر میں چاہتا تو آسمان کو چھو سکتا تھا، پھر میں نے ھبل کو کعبہ کی چھت سے نیچے گرایا اور اس کے بعد خدا وند عالم نے اس آیت کو ناز ل کیا ”و قل جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا“(۱)۔ اور کہو : حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا، یقینا باطل کو نابود ہی ہونا تھا۔
اس روایت کو حافظان قرآن، آئمہ حدیث اورتاریخ کے ایک گروہ نے نقل کیا ہے اور بعد کی صدیوں میں بھی مصنفین نے اس سے اخذ کیا ہے اور اپنی کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے اور اس کی سند میں کسی خدشہ کے بغیر اس کو آنکھیں بند کرکے سب نے قبول کیا ہے۔
علامہ امینی (رحمہ اللہ) نے الغدیر (۲) میں اکتالیس ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس روایت کو نقل کیا ہے(۳)۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.