مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوال : کیا عمر بن خطاب کا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس دفن ہونا اور عایشہ سے اجازت حاصل کرنا بہت بڑی فضیلت ہے؟
جواب : عمرو بن میمون سے نقل ہوا ہے : عمر بن خطاب نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا: ام المومنین عایشہ کے پاس جاؤ اور اس سے کہو : عمر نے سلام پہنچایا ہے (اور اس وقت مجھے امیر المومنین نہ کہنا، کیونکہ میں آج مومنین کا امیر نہیں ہوں ) اورتم سے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور اپنے دوست ابوبکر کے پاس دفن ہونے کیلئے اجازت کی درخواست کی ہے ۔عبداللہ نے نے عایشہ کے پاس جاکر سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی ، جب وہ وارد ہوئے تو دیکھا کہ عایشہ بیٹھی ہوئی رو رہی ہے ، عبداللہ نے اس سے کہا : عمر نے تمہاری خدمت میں سلام پہنچایا ہے اور تم سے درخواست کی ہے کہ اس کو پیغمبر خدا اور ابوبکر کے پاس دفن ہونے کی اجازت دیدو ۔
عایشہ نے کہا : وہاں میں خود دفن ہونا چاہتی تھی لیکن اب اس کواپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں ۔ عبداللہ واپس پلٹے تو لوگوں نے کہا عبداللہ واپس آرہے ہیں، عمر نے کہا : مجھے بلند کرو، ایک شخص نے اس کو بلندکیا، عمر نے پوچھا : کیا ہوا؟ عبداللہ نے کہا : امیر المومنین جو چاہتے تھے اس کی اجازت مل گئی ۔ عمر نے کہا: الحمد للہ ما کان شئی اھم الی من ذ۱لک المضجع، فاذا انا قضیت فاحملونی و ان ردتنی فردونی الی مقابر المسلمین“ (۱) ۔ الحمد للہ ، میرے لئے اس آرامگاہ سے بہتر کچھ نہیں تھا ، پس جب بھی میں مرجاؤں تو مجھے وہاں لے جانا اور اگر عائشہ کا نظریہ بدل جائے تو مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا ۔
قابل ذکر بات یہ ہے: کاش کہ عمر عایشہ سے اجازت لینے کی دلیل بھی ہم کو بتادیتے ۔ کیا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا حجرہ عایشہ کو میراث میں ملا تھا اور وہ اس کی مالک ہوگئی تھی؟ او راگر ایسا ہے تو پھر اس جعلی حدیث کا کیا ہوگا جس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے منسوب کیا گیا ہے : ”نحن معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقة“ ۔ ہم انبیاء حضرات کوئی بھی چیز میراث میں نہیں چھوڑتے اور ہم سے جو کچھ بھی باقی بچتا ہے وہ صدقہ ہوتا ہے؟!۔
وہی حدیث جس کو بعض لوگوں نے حضرت صدیقہ کبری (علیھا السلام) سے فدک غصب کرنے کے لئے دستاویز کے طور پر پیش کی تھی، اسی دلیل نے ابوبکر، عاشہ اورپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تمام ازواج کو آٹھواں حصہ لینے سے محروم کردیا (۲) ۔
اور اگرعمر اس وقت سمجھ گئے تھے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے اور وہ اپنے گذشتہ نظریہ سے پھر گئے تھے تو پھر کیوں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بیٹی کے وارثوں سے اجازت حاصل نہیں کی، جب کہ ان سے اجازت لینا دوسروں پر مقدم ہے ،کیونکہ مالک حقیقی وہ ہیں اور عایشہ فقط آٹھویں حصہ میں سے نویں حصہ کی حقدار ہے کیونکہ جس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت ہوئی اس وقت آپ کی نو بیویاں تھیں اور اس طرح کمرہ کے آٹھویں حصہ میں سے نواں حصہ عایشہ کو پہنچتا ہے اور شاید اس کمرہ سے عایشہ کا حصہ ایک بالشت یا دوبالشت ہوتا ہے ۔
شاید قارئین کرام ، ابن بطال کے کلام کا مطالعہ کریں جس میں اس نے کہا ہے : عمر نے اس دلیل کی وجہ سے عایشہ سے اجازت لی کہ وہ عایشہ کاگھر تھا اور اس کو اس گھر میں حق حاصل تھا (۳) ۔اور وہ گمان کریں کہ عایشہ اس حجرہ میں حقدار تھی اس لئے اس سے اجازت لینا ضروری تھا ، لیکن جاننا چاہئے کہ عایشہ کو فقط اس گھر میں رہنے کا حق تھا اور گھر صرف اس سے منسوب تھا اور یہ مالک ہونے کا سبب نہیں بنتا ۔
ابن حجر نے ”فتح الباری“ (۴) میں کہا ہے :
اس بات کو ثابت کرنے کیلے کہ عایشہ اس کمرہ کی مالک تھی ، اس کی سکونت ، میراث پانے اور عمر کا وہاں دفن ہونے کی اجازت لینے سے استدلال کرتے ہیں ، لیکن یہ استدلال مردود ہے ،کیونکہ وہاں رہنے کا جو حق حاصل ہے اس سے صرف حق منفعت ثابت ہوتا ہے اور حق منفعت کو میراث میں نہیں لیا جاسکتا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بیویوں کا حکم ان عورتوں کا حکم ہے جو عدت میں ہوتی ہیں ،کیونکہ ازواج پیغمبر کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد شادی کرنے کا حق نہیں ہے ، اس لحاظ سے وہ عدت والی عورتوں کی طرح ہیں جن کو اپنے شوہروں کے گھروں میں فقط رہنے کا حق حاصل ہے ۔
پس ام المومنین عایشہ کو بھی عدت والی عورتوں کی طرح پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حجرہ میں رہنے کا حق ہے اور مالکانہ تصرف کا حق حاصل نہیں ہے ۔
بعض افراد لوگوں کے مال میں تصرف کرنے کے باب میں اسلام کے عام قانون کی طرف توجہ کئے بغیر عایشہ سے اجازت لینے اور خلیفہ کے دفن ہونے کو عمر کے فضائل و مناقب میں شمار کرتے ہیں(۵) ۔
__________________
1 ـ صحیح بخارى 2 : 263 ; و 5 : 226 ]1/469 ، ح 1328 ; و 3/1355 ، ح 3497[ .
2 ـ السیرة الحلبیّة 3 : 390 ]3/361[ .
3 ـ فتح الباری 3 : 200 ]7/66[ .
4 ـ فتح الباری 7 : 53 ]7/66[ .
5 ـ شفیعى شاهرودى، گزیده اى جامع از الغدیر، ص 541.
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.