مختصر جواب:
مفصل جواب:
مشہور مورخ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں اسلام قبول کرنے والوں کو اذیت پہچانے کا تذکر ہ کرتے ہوے عمر کی کنیز «لبیہ« کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے : «اسلمت قبل اسلام عمر بن الخطاب و کان یعذبھا حتی ثفتن ، ثم یدعھا و یقول : انی لم ادعک الاسامة« ۔
اس کنیز نے عمربن خطاب سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا ، عمر اس کو اذیت کرتا تھا کہ دین اسلام کو چھوڑ دے پھر (جب تھک جاتا تھا تو) اس کو چھوڑ دیتا تھا اوراس سے کہتا تھا : میں نے تجھے اس لئے چھوڑ دیا کیونکہ میں تھک گیا ہوں (١) ۔
ابن اثیر نے لکھا ہے : عمر سب سے پہلا شخص ہے جو عورتوں کو کوڑے مارتا تھا اور تاریخی کتابوں کے مطابق اس عمل کو بار بار انجام دینے کی وجہ سے بچے جب بھی اس کودیکھتے تھے توخوف ووحشت کی وجہ سے بھاگ جاتے تھے (٢) ۔
شاید اس کی یہ جسارت اس کی تندخویی کی وجہ سے ہو کیونکہ کتاب «الطبقات « میں اہل سنت کے مشہور دانشور ابن سعد کے نقل کرنے کے مطابق عمر نے خلافت حاصل کرنے کے بعد منبر پر سب سے پہلے یہ کلمات کہے : «اللھم انی شدید غیظ فلینی« ۔ خدایا مجھے غصہ بہت زیادہ آتا ہے لہذا مجھے نرم اور ملایم قرار دے (٣) ۔
لیکن خلافت سے قبل اور خلافت کے بعد اس کے حالات زندگی سے استفادہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی تندخویی اور غصہ کو ترک نہ کرسکا ،یہاں پر ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
الف : ابوبکر کی موت کے وقت گریہ وزاری کرتی ہوئی عورتوں پرحملہ
ابوبکر کے مرنے کے بعد اس کی رشتہ دار عورتیں گریہ کررہی تھیں، ۔ عمر نے ان سے خاموش ہونے کو کہا ۔ لیکن انہوں نے اس کی بات نہیں سنی، عمر نے حکم دیا ان سب عورتوں کو باہر نکالو، جس وقت ابوبکر کی بہن ام فروہ کو باہر نکال کر خلیفہ کے پاس لائے تو عمر نے اس کو تازیانہ مارا « فعلاھا بالدرة ، فضربھا ضربات« (٤) ۔
خالدبن ولیدکے مرنے کے بعد کچھ عورتیں میمونہ (پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ایک زوجہ)کے گھر جمع ہوکر رونے لگیں، عمر تازیانہ لے کر ابن عباس کے ساتھ وہاں آیا اور ابن عباس سے کہا : گھر میں داخل ہو کر ام المومنین سے کہو کہ پردہ کرلیں، اس کے بعد وہاں سے عورتوں کو باہر نکالو ! ابن عباس نے داخل ہو کر عورتوں کو باہر نکالا ، عمر نے ان کے تازیانے لگائے « .... فعجل یخرجھن علیہ و ھو یضربھن بالدرة«۔ جس وقت وہ عورتوں کو مار رہے تھے ایک عورت کے سر سے چادر ہٹ گئی (اور اس کے بال کھل گئے) بعض لوگ جو وہاں پر موجود تھے انہوں نے عمر سے کہا : اے امیرالمومنین ! اس کا سر کھل گیا ہے ! اس نے جواب دیا اس کو چھوڑ دو ، اس کا کوئی احترام نہیں ہے « ... فقالوا : یا امیرالمومنین ! خمارھا ! فقال : دعوھا و لا حرمة لھ«(٥) ۔
ب : عمر کا عورتوں کوکوڑے مارنا
مسند احمد کے نقل کے مطابق رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بیٹی رقیہ کی رحلت کے بعد عورتیں اس کے فراق میں رو رہی تھیں، عمر وہاں پر موجود تھا اور عورتوں کے تازیانے مارر ہا تھا «فجعل عمر یضربھن بسوطہ« ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے عمر سے فرمایا : « دعھن بیکین« ان کو رونے دو۔
رسول اللہ کے منع کرنے کے باوجود عمر نے اپنے غصہ اور غلط کام کو نہیں چھوڑ یا (٦) ۔
اہل سنت کی معتبر کتابوں میں اشعث بن قیس سے نقل ہوا ہے وہ کہتا ہے : میں ایک رات خلیفہ دوم کا مہمان تھا ، عمر آدھی رات میں اٹھ کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اس کو طمانچہ مارنے شروع کئے ، میں نے اٹھ کر اس کو اس کام سے منع کیا ، جب عمر بستر پر واپس آیا تو مجھ سے کہا : اے اشعث ،میں نے رسول خدا (ص) سے ایک جملہ سنا ہے اس کو یادرکھو ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : مردوں سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ تم نے اپنی بیوی کو طمانچہ کیوں مارا ہے (٧) ۔
ج : اپنے اہل و عیال کے ساتھ عمر کی تندخویی
اسلام اورپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت کے لحاظ سے ایک مسلمان کی بہترین اور پسندیدہ خصلت یہ ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال سے محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آئے ۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : «خیرکم خیرکم لاھلہ و انا خیرکم لاھلی« ۔ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر ہوں(٨) ۔
اس سلسلہ میں حضرت عایشہ سے نقل ہوا ہے : «ما ضرب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خادما ، ولا امراة« ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے کبھی اپنے خادم اور عورت کو نہیں مارا (٩) ۔
طبری اورابن اثیر نے نقل کیا ہے کہ عمر نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ابوبکر کی بیٹی ام کلثوم سے رشتہ بھیجا ،اس وقت اس کی عمر بہت کم تھی ۔ عایشہ نے خلیفہ کی خواہش کو اپنی بہن ام کلثوم کے سامنے پیش کیا ، ام کلثوم نے کہا : مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ! عایشہ نے کہا ، خلیفہ کی طرف مائل نہیں ہو ؟ اس نے جواب دیا : «... نعم انہ خشن العیش، شدید علی النسا « ۔ جی ہاں ! کیونکہ وہ زندگی بسر کرنے میں سختی سے کام لیتا ہے اور عورتوں کے ساتھ تندروی اور سخت کلامی سے رفتار کرتا ہے (١٠) ۔
ابن عبدالبر کے نقل کرنے کے مطابق ام کلثوم نے اپنی بہن عایشہ سے کہا : تم چاہتی ہو کہ میں ایسے شخص سے شادی کروں جو سخت کلامی اور غصے سے کام لیتا ہے اور تم اس بات کو جانتی ہو (١١) ۔
اپنے اہل وعیال کے ساتھ عمر کی سخت کلامی اور غصہ کو عام و خاص سب جانتے تھے یہاں تک کہ ابوبکر کی کم سن بیٹی ام کلثوم بھی اس سے باخبر تھی ۔ جب کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) عورتوں اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ بہترین برتائو کرنے کی سفارش فرماتے تھے اور مسلمانوں کو زمانہ جاہلیت کی عادت و اطوار کو ترک کرنے کا حکم دیتے تھے اورعورتوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے (١٢) ۔
خوف و وحشت کی وجہ سے ایک عورت کے بچہ کا سقط ہونا
فقہائے اہل سنت نے دیات کی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک روز عمر نے حاملہ عورت کے پاس کسی کو بھیجا تاکہ اس پر جو تہمت لگی تھی اس کی تحقیق کرے ۔ عورت نے عمر کا نام سن کر کہا : « یا ویلھا مالھا و لعمر« ۔ اس عورت پر وائے ہو (اپنی طرف اشارہ ہے) اس کو عمر سے کیا کام؟ بہر حال اس کو وہاں سے عمر کے پاس لانے کیلئے روانہ ہوئے ، راستہ میں خوف و وحشت کی وجہ سے اس کا بچہ سقط ہوگیا اور مرگیا « فالقت ولدا فصاح الصبی صیحتین ثم مات«۔
عمر نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اصحاب سے اس کے حکم کے بارے میں سوال کیا ، بعض نے کہا : تجھ پر کچھ نہیں ہے ، اس وقت حضرت علی (علیہ السلام) خاموش کھڑے تھے ۔ عمر نے آپ کی طرف دیکھا اور پوچھا : آپ کی کیا رائے ہے؟ علی (علیہ السلام) نے فرمایا : اگر ان کی رائے یہی تھی جو انہوںنے بیان کی ہے تو ان سب نے غلطی کی ہے اور اگر انہوں نے تجھے خوش کرنے کے لئے ایسی بات کہی ہے تو یہ تیرے خیرخواہ نہیں ہیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس سقط شدہ بچے کی دیت تجھ پر ہے کیونکہ تو نے اس عورت کوڈرایا ہے جس کی وجہ سے اس کا بچہ سقط ہوگیا «لانک انت افزعتھا فالقت« (١٣) ۔
علمائے اہل سنت کے نظریہ کے مطابق یہ حکم اس قدر مسلم ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں اس سے استناد کرتے ہیں ، محی الدین نووی نے المجموع میں لکھا ہے : اگر کسی حاکم کے پاس کسی عورت کی بدگوئی کی جائے اوراس پر الزام لگایا جائے ،پھر حاکم کسی کو اس عورت کے پاس بھیجے تاکہ وہ اس کو حاضر کرے اور اس عورت کا خوف و وحشت کی وجہ سے بچہ ساقط ہوجائے تو حاکم پرواجب ہے کہ اس کی دیت ادا کرے ۔
ابوحنیفہ نے بھی یہی فتوی دیا ہے اور حنبلیوں کے راہنما احمد بن حنبل نے کہا ہے : بچے کی دیت کے علاوہ عورت کی دیت بھی دے ، کیونکہ حاکم نے اس کو احضار کیا ہے ،پس وہ عورت کی حفاظت کا بھی ضامن ہے ،مثلا عورت کو مارے اور وہ مرجائے (١٤) ۔
حنبلیوں کے مشہور فقیہ ابن قدامہ مقدسی نے لکھا ہے : «اذا بعث السلطان الی امراة لیحضرھا فاسقطت جنینا میتا ضمنہ « ۔ اگر حاکم کسی عورت کو احضار کرے اور اس عورت کا بچہ مرا ہوا پیدا ہو تو حاکم ضامن ہے (١٥) ۔
نتیجہ
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اسلام اورپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت کے لحاظ سے ایک مسلمان کی بہترین اور پسندیدہ خصلت یہ ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال سے محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آئے ۔اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس سلسلہ میں بارہا فرمایا : «خیرکم خیرکم لاھلہ و انا خیرکم لاھلی« ۔ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر ہوں ۔ لیکن افسوس کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمانوں کا خلیفہ جانتا ہو ! وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ سخت کلامی اور مسلمانوں کی عورتوں کے ساتھ سب سے غلط طریقہ سے پیش آتا ہے ۔ اور پیغمبر اسلام کی بیٹی رقیہ کی رحلت کے سلسلہ میں ان عورتوں کو کوڑے مارے جو ان کے فراق میں رو رہی تھیں (اور یقینا اس وقت پیغمبر اکرم (ص) کے اہل و عیال بھی وہاں پر موجود تھے) ۔ عمر کے اس سلوک سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر عورتوں کے ساتھ سخت کلامی اور غصہ سے بات کرتا تھا ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.