مختصر جواب:
مفصل جواب:
بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ زمین پر ہاتھ مارنے اورپھر انہیں پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پھیر نے میں کیا فائدہ ہے خصوصاًجبکہ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے مٹی گندی بھی ہوتی ہے اور اس سے جراثیم بھی منتقل ہوتے ہیں ۔
اس اعتراض کے جواب کے لئے دو نکتوں کی طرف توجہ کرنا چاہئیے ۔
الف: اخلاقی فائدہ ۔ تیمم ایک عبادت ہے ۔ اور عبادت کی روح اس میں اپنے حقیقی معنی میں جلوہ گر ہوتی ہے ۔ کیونکہ انسان اپنی پیشانی کو جو بدن کا محترم ترین عضو ہے اس ہاتھ سے جو مٹی پر مارا گیا ہے مس کرتا ہے ۔ تاکہ اس کی بارگاہ میں اپنی عاجزی و انکساری ظاہر کرے ۔ یعنی میری پیشانی اور ہاتھ تیرے سامنے انتہائی خشوع و خضوع کے لئے حاضر ہیں ۔ اس کے بعد انسان نماز یا دو سری عبادتوں کو انتہائی خلوص اور عاجزی سے ادا کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے جن میں وضو یا غسل کی شرط ہے ۔ اس طرح انکساری، عبودیت اور شکر گزراری کے جذبے کو پر وان چڑھانے کے لئے یہ عمل بہت موٴثر اور کار گر ہے ۔
ب:حفظانِ صحت کافائدہ : آج کی دنیا میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مٹی اپنے بہت سے جر ثوموں (BACTERIAS )ی وجہ سے گندگیوں کو دور کرسکتی ہے ۔ یہ جر ثومے جن کاکام آلودہ کرنے والے مواد کا تجزیہ اور طرح طرح کی بد بو کو دور کرنا ہے زیادہ تر زمین کی سطح پر معمولی سی گہرائی میں جہاں سے ہوا اور سورج کی روشنی سے بخوبی فائدہ اٹھا سکیں بکثرت پائے جاتے ہیں ۔ اسی وجہ سے جب مردہ جانوریا لاشیں زمین میں دفن کردی جائیں اور اسی طرح سے دوسری چیزیں جو گندگی سے بھری ہوئی زمین پر پڑی ہوں ، تھوڑے ہی عرصے میں ان کے اجزابکھرے جاتے ہیں اور جرثوموں کی وجہ سے وہ بد بو کا مرکز نیست و نابود ہوکر رہ جاتاہے۔
یہ مسلم ہے کہ اگر زمین میں یہ خاصیت نہ ہوتی تو کرہٴ زمین مدت قلیل میں بد بو کے ڈھیروں میں بدل جاتا ۔ اصولی طور پر مٹی اینٹی بائیوٹک(ANTIBIOTIC)اثر رکھتی ہے جو بہترین جراثیم کش ہے ۔ اس بناپر نہ صرف یہ کہ پاکیزہ مٹی گندی چیز نہیں بلکہ وہ گندگی کو دور کرنے والی ہے اور اس لحاظ سے ہوسکتا ہے کہ وہ کسی حد تک پانی کی جانشینی کرے ۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ پانی حلّال ہے یعنی وہ جراثیم کو حل کرکے بہالے جاتا ہے۔ لیکن مٹی انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے ۔
البتہ توجہ رہے کہ تیمم کی مٹی مکمل طور پر پاک و کیزہ ہو ۔ جیسا کہ قرآن اس کی عجیب و غریب تعبیر لفظ” طیباً“ سے کرتا ہے ۔
یہ بھی قابل توجہ ہے کہ اس ”سے وہ ” صعید “ مراد ہے جو مادہٴ ” صعود“ لیا گیا ہے ۔ یعنی بہتر ہے کہ اس کام کے لئے وہ مٹی چنی جائے جو سطح زمین پر سورج کی تپش اور اس کی روشنی کی زد میں ہو اور جراثیم مار نے والے جرثوموں سے بھری ہوئی ہو۔ اگر اس قسم کی مٹی پاک و پاکیزہ بھی ہو تو اس سے تیمم مندرجہ بالا اثرات رکھتا ہے ( سوہ ٴمائدہ کی آیت ۶ کی ذیل میں اسی سلسلہ میں مزید بحث کی جائے گی)۔۱
اس اعتراض کے جواب کے لئے دو نکتوں کی طرف توجہ کرنا چاہئیے ۔
الف: اخلاقی فائدہ ۔ تیمم ایک عبادت ہے ۔ اور عبادت کی روح اس میں اپنے حقیقی معنی میں جلوہ گر ہوتی ہے ۔ کیونکہ انسان اپنی پیشانی کو جو بدن کا محترم ترین عضو ہے اس ہاتھ سے جو مٹی پر مارا گیا ہے مس کرتا ہے ۔ تاکہ اس کی بارگاہ میں اپنی عاجزی و انکساری ظاہر کرے ۔ یعنی میری پیشانی اور ہاتھ تیرے سامنے انتہائی خشوع و خضوع کے لئے حاضر ہیں ۔ اس کے بعد انسان نماز یا دو سری عبادتوں کو انتہائی خلوص اور عاجزی سے ادا کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے جن میں وضو یا غسل کی شرط ہے ۔ اس طرح انکساری، عبودیت اور شکر گزراری کے جذبے کو پر وان چڑھانے کے لئے یہ عمل بہت موٴثر اور کار گر ہے ۔
ب:حفظانِ صحت کافائدہ : آج کی دنیا میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مٹی اپنے بہت سے جر ثوموں (BACTERIAS )ی وجہ سے گندگیوں کو دور کرسکتی ہے ۔ یہ جر ثومے جن کاکام آلودہ کرنے والے مواد کا تجزیہ اور طرح طرح کی بد بو کو دور کرنا ہے زیادہ تر زمین کی سطح پر معمولی سی گہرائی میں جہاں سے ہوا اور سورج کی روشنی سے بخوبی فائدہ اٹھا سکیں بکثرت پائے جاتے ہیں ۔ اسی وجہ سے جب مردہ جانوریا لاشیں زمین میں دفن کردی جائیں اور اسی طرح سے دوسری چیزیں جو گندگی سے بھری ہوئی زمین پر پڑی ہوں ، تھوڑے ہی عرصے میں ان کے اجزابکھرے جاتے ہیں اور جرثوموں کی وجہ سے وہ بد بو کا مرکز نیست و نابود ہوکر رہ جاتاہے۔
یہ مسلم ہے کہ اگر زمین میں یہ خاصیت نہ ہوتی تو کرہٴ زمین مدت قلیل میں بد بو کے ڈھیروں میں بدل جاتا ۔ اصولی طور پر مٹی اینٹی بائیوٹک(ANTIBIOTIC)اثر رکھتی ہے جو بہترین جراثیم کش ہے ۔ اس بناپر نہ صرف یہ کہ پاکیزہ مٹی گندی چیز نہیں بلکہ وہ گندگی کو دور کرنے والی ہے اور اس لحاظ سے ہوسکتا ہے کہ وہ کسی حد تک پانی کی جانشینی کرے ۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ پانی حلّال ہے یعنی وہ جراثیم کو حل کرکے بہالے جاتا ہے۔ لیکن مٹی انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے ۔
البتہ توجہ رہے کہ تیمم کی مٹی مکمل طور پر پاک و کیزہ ہو ۔ جیسا کہ قرآن اس کی عجیب و غریب تعبیر لفظ” طیباً“ سے کرتا ہے ۔
یہ بھی قابل توجہ ہے کہ اس ”سے وہ ” صعید “ مراد ہے جو مادہٴ ” صعود“ لیا گیا ہے ۔ یعنی بہتر ہے کہ اس کام کے لئے وہ مٹی چنی جائے جو سطح زمین پر سورج کی تپش اور اس کی روشنی کی زد میں ہو اور جراثیم مار نے والے جرثوموں سے بھری ہوئی ہو۔ اگر اس قسم کی مٹی پاک و پاکیزہ بھی ہو تو اس سے تیمم مندرجہ بالا اثرات رکھتا ہے ( سوہ ٴمائدہ کی آیت ۶ کی ذیل میں اسی سلسلہ میں مزید بحث کی جائے گی)۔۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.