مختصر جواب:
مفصل جواب:
ہمیں معلوم ہے کہ حج و عمرہ ان عبادات میں سے ہے جو انسان کو عالم مادہ سے جدا کرکے ایک ایسے ماحول میں جو روعانیت و معنویت سے معمور ہیں مستغرق کردیتی ہیں ۔ مادّی زندگی کے مقررات، جنگ و جدال، جھگڑے فساد، جنسی ہوس رانیاں اور مادی لذات حج و عمرہ کے مراسم میں کلی طور پر چھوڑنا پڑتی ہیں اور انسان ایک قسم کی شرعی الٰہی ریاضت میں مشغول ہوجاتاہے ۔ یوں نظر آتا ہے کہ حالت احرام میں حرمت شکار بھی اسی مقصد کے ماتحت ہے ۔
علاوہ ازیں اگر خانہٴ خدا کے زائر کے لئے شکار کرنا ایک مشروع اور جائز کام ہوتا تو اس آمدورفت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جو ہر سال اس مقدس سرزمین میں ہوتی ہے، اس علاقہ کے بہت سے جانوروں کی نسل کہ جو خشکی اور پانی کی کمی کی وجہ سے پہلے ہی کم ہے، ختم ہوجاتی لہٰذا یہ حکم اس علاقے کے جانوروں کی نسل کی بقا کے لئے ایک قسم کی حفاظت و ضمانت ہے ۔
خصوصاً اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ حالت احرام کے علاوہ بھی حرم میں شکار اور اسی طرح اس کے درختوں اور گھاس پھونس کا اکھاڑنا ممنوع ہے، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ حکم زندگی کے ماحول کی حفاظت اور اس علاقے کے سبزہ زاروں اور جانوروں کو فنا و نابودی سے بچانے کے مسئلہ سے نزدیکی ربط رکھتا ہے ۔
یہ حکم اس قدر دقیق تشریع ہوا ہے کہ نہ صرف جانوروں کا شکار کرنا بلکہ اس سلسلہ میں مدد کرنا، یہاں تک کہ شکاریوںکو شکار کی نشاندہی کرنا اور انھیں شکار کرنے کی رائے دینا بھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ اہلِ بیت(علیه السلام) کے طریق سے وارد شدہ روایات میں ہے کہ امام صادق (علیه السلام) نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا:
”لا تستحلن شیئاً من الصید واٴنت حرام ولا وانت حلال فی الحرم ولاتدلن علیہ محلا ولامحرما فیصطادہ ولاتشر الیہ فیستحل من اجلک فان فیہ فداء لمن تعمدہ“
”ہرگز شکار میں سے کسی چیز کو حالت احرام میں حلال شمار نہ کرنا اور اسی طرح حرم کا شکار غیر حالت احرام میں بھی حلال نہیں ۔ محرم و غیر محرم کو شکار کی نشاندہی بھی نہ کرنا کہ وہ شکار کرلے، یہاں تک کہ اس کی طرف اشارہ بھی نہ کرنا (اور اُسے کوئی حکم نہ دینا) کہ وہ تیری وجہ سے شکار کو حلال سمجھے کیونکہ یہ کام اس شخص کا شمار ہوگا جس نے شکار کا حکم دیا ہے یا اشارہ کیا ہے اور کفارہ بھی اس پر واجب ہوگا“۔ (۱)
علاوہ ازیں اگر خانہٴ خدا کے زائر کے لئے شکار کرنا ایک مشروع اور جائز کام ہوتا تو اس آمدورفت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جو ہر سال اس مقدس سرزمین میں ہوتی ہے، اس علاقہ کے بہت سے جانوروں کی نسل کہ جو خشکی اور پانی کی کمی کی وجہ سے پہلے ہی کم ہے، ختم ہوجاتی لہٰذا یہ حکم اس علاقے کے جانوروں کی نسل کی بقا کے لئے ایک قسم کی حفاظت و ضمانت ہے ۔
خصوصاً اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ حالت احرام کے علاوہ بھی حرم میں شکار اور اسی طرح اس کے درختوں اور گھاس پھونس کا اکھاڑنا ممنوع ہے، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ حکم زندگی کے ماحول کی حفاظت اور اس علاقے کے سبزہ زاروں اور جانوروں کو فنا و نابودی سے بچانے کے مسئلہ سے نزدیکی ربط رکھتا ہے ۔
یہ حکم اس قدر دقیق تشریع ہوا ہے کہ نہ صرف جانوروں کا شکار کرنا بلکہ اس سلسلہ میں مدد کرنا، یہاں تک کہ شکاریوںکو شکار کی نشاندہی کرنا اور انھیں شکار کرنے کی رائے دینا بھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ اہلِ بیت(علیه السلام) کے طریق سے وارد شدہ روایات میں ہے کہ امام صادق (علیه السلام) نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا:
”لا تستحلن شیئاً من الصید واٴنت حرام ولا وانت حلال فی الحرم ولاتدلن علیہ محلا ولامحرما فیصطادہ ولاتشر الیہ فیستحل من اجلک فان فیہ فداء لمن تعمدہ“
”ہرگز شکار میں سے کسی چیز کو حالت احرام میں حلال شمار نہ کرنا اور اسی طرح حرم کا شکار غیر حالت احرام میں بھی حلال نہیں ۔ محرم و غیر محرم کو شکار کی نشاندہی بھی نہ کرنا کہ وہ شکار کرلے، یہاں تک کہ اس کی طرف اشارہ بھی نہ کرنا (اور اُسے کوئی حکم نہ دینا) کہ وہ تیری وجہ سے شکار کو حلال سمجھے کیونکہ یہ کام اس شخص کا شمار ہوگا جس نے شکار کا حکم دیا ہے یا اشارہ کیا ہے اور کفارہ بھی اس پر واجب ہوگا“۔ (۱)
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.