مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوال : کیا حدیث ”اثناعشر خلیفہ“ کی تضعیف میں احمد کاتب کابیان قابل قبول ہے؟
جواب : احمد کاتب نے شیعوں کے حدیثی مآخذ میں روایات ” اثناعشر خلیفہ“ کی سند پر اعتراض کیا ہے : ” جن روایات میں بارہ اماموں اور محمد بن حسن بارہویں امام کا نظریہ نقل کیا گیا ہے یہ سب روایتیں اخبار واحد میں سے ہیں، اور ان کے اوپر کوئی بھی دلیل و برہان دلالت نہیں کرتی ، لہذا ان کے صحیح ہونے کا دعوی کرنا ممکن نہیں ہے اس کے علاوہ ان کے راویوں کو ملامت بھی کیا گیا ہے (۱) ۔
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں :
احمد کاتب کے کلام میں کچھ اشکال و اعتراضات پائے جاتے ہیں:
۱۔ جو روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد امام بارہ ہیں، یہ روایتیں تواتر کی حد سے بڑھی ہوئی ہیں اور استقصاء سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون کی تقریبا ایک ہزار روایتیں موجود ہیں، اور دوسری جگہ کہا گیا ہے کہ خبر متواتر کی سند کی تحقیق ضروری نہیں ہے کیونکہ تواتر خود بخود مفید قطع و یقین ہے اور اس کے لئے تعبد شرعی کی ضرورت نہیں ہے چاہے ہر سند کے تمام راویوں کی وثاقت ثابت نہ ہو ۔
۲۔ شیعوں کے تمام رجال اور اصحاب نے ان روایات کو قبول کیا ہے اور ان روایات پر متفق ہیں، اور یہ خود این روایات کے صحیح ہونے اور معصومین سے صادر ہونے پر بہترین دلیل ہے ۔
شہید صدر (رحمة اللہ علیہ) کہتے ہیں: ” یہ روایتیں کثیر تعداد میں معصوم اماموں سے نقل ہوئی ہیں اور ان میں امام کو محفوظ کرنے کی وجہ سے کثرت اور انتشار پایا جاتا ہے اور ان روایات کی عددی کثرت ان کو قبول کرنے کی بنیاد نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ قرائن و شواہد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ احادیث صحیح ہیں، ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ بخاری جو کہ امام محمد تقی ، امام محمد نقی اور امام عسکری (علیہم السلام) کا ہم عصر ہے ، انہوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس امر میں ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے ، یہ خود اس بات پر دلیل ہے کہ یہ حدیث پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ثابت ہے اس سے قبل کہ اس کا مضومن بارہ اماموں کی فکر کے نتیجہ میں کمال تک پہنچے (۲) ۔
۳۔ اس متعلق تمام روایات کو ملاحظہ کرنے سے بہت سی ایسی صحیح السند روایات ملتی ہیں کہ اگر وہ متواتر بھی نہ ہو تو کم سے کم ان روایات سے استفاضہ کی حد تک پہنچا جاسکتا ہے، منجملہ بخاری ، مسلم اور دوسرے علماء نے اپنے نزدیک صحیح سند کے ساتھ اس حدیث کو ذکر کیا ہے اوراس متعلق کلینی اور صدوق نے بھی نقل کیا ہے جن میں سے کچھ کی سند صحیح ہے اور ان میں سب سے مشہور حدیث وہ ہے جو سلیم بن قیس پر ختم ہوتی ہے ،یہ حدیثیں شیعہ بزرگ علماء کے نزدیک دوسری صدی ہجری میں مشہور تھیں ۔
۴۔ بالفرض اگر یہ حدیثیں تواتر کی حدتک نہ پہنچیں، جب بھی ہم بعض واحد روایت جن کی سند صحیح ہے اور روایات کے ساتھ جو یقینی قراین وشواہد موجود ہیں اور اسی طرح اصحاب کے قبول کرنے سے ان کے یقین اور کم سے کم اطمینان تک پہنچ سکتے ہیں (۳) ۔
___________________
۱۔ جمکران کی سایٹ کے شکریہ کے ساتھ۔
۲۔ بحث حول المہدی (علیہ السلام)، ص ۶۵۔ ۶۷۔
۳۔ علی اصغر رضوانی ، امام شناسی و پاسخ بہ شبھات (۲)، ص ۲۸۳۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.