مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوال : کیا جو حدیث سفینہ سے نقل ہوئی ہے وہ حدیث ”اثناعشر خلیفہ“ کے مخالف ہے؟
جواب : احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں سفینہ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ” خلافت تیس سال رہے گی اس کے بعد سلطنت اور بادشاہت ہوجائے گی (۱) ۔
بعض علمائے اہل سنت نے اس حدیث کو احادیث ”اثناعشر خلیفہ“ کے مخالف جانا ہے ۔ نووی نے قاضی عیاض سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : حدیث ” الخلافة بعدث ثلاثون سنة ثم تکون ملکا“ حدیث ”اثناعشر خلیفہ“ کے مخالف ہے کیونکہ بارہ خلفاء کی خلافت تیس سال نہیں ہوئی ہے ، صرف خلفائے راشدین اور حسن بن علی کی خلافت تقریبا تیس سال ہوئی ہے (۲) ۔
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں:
اولا : اس حدیث کو معتبر سمجھتے ہوئے یہ حدیث سفینہ غیر معتبر اور غیر مشہور ہے جیسا کہ بعض علماء جیسے ابن تیمیہ نے اس کی تصریح کی ہے (۳) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روایت صرف سفینہ کے طرق سے پہنچی ہے اور اس کو صرف ترمذی، ابوداؤد اور احمد نے نقل کیا ہے اور حدیث سفینہ کا راوی بھی سعید بن جمھان ہے جس کی علم رجال میں تضعیف ہوئی ہے ۔
ابوحاتم نے اس کے متعلق کہا ہے: اس کی حدیثیں لکھی جاتی ہیں لیکن ان سے استدلال نہیں کیا جاتا ۔ احمد بن حنبل سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے اس سے رضایت کا اظہار نہیں کیا بلکہ غصہ کی حالت میں کہا: وہ باطل ہے ۔ ساجی نے کہا ہے : اس کی حدیثوں کی پیروی نہیں کی جاتی ۔ ابن معین نے کہا ہے: سفینہ سے کچھ احادیث کو نقل کیا ہے جن کو دوسروں نے نقل نہیں کیا ہے ۔ بخاری نے لکھا ہے: اس کی حدیث میں عجیب و غریب باتیں نظر آتی ہیں (۴) ۔
ثانیا : ان دونوں روایتوں کے درمیان فرق ہے کیونکہ ظاہری طور پر حدیث ”اثناعشر خلیفہ” میں جو بعض اوصاف بیان ہوئے ہیں ان کے قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ برحق امام ہیں، ان میں سے بعض روایات میں ان کے قیام اور ان کے وجود سے دین کی عزت کو بیان کیا گیا ہے اور اس طرح کی تعبیر کبھی دوسرے خلفاء کے ساتھ سازگار نہیں ہیں، اگر چہ ان کے درمیان حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام) اور امام حسن (علیہ السلام) معصوم اور عین عدل تھے ، گویا حدیث سفینہ کے ظاہر سے (اس کی سند کو صحیح فرض کرتے ہوئے) مطلق خلافت مراد ہے ، چاہے وہ خلافت حق ہو یا خلافت باطل ۔ اور خلافت سے مراد اس کے لغوی اور مجازی معنی مراد ہیں، اسکی تائید اس بات سے ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی حدیث میں ”الخلافة“ فرمایا ہے ”خلفائی“ نہیں ۔ یعنی تیس سال کی خلافت کو اپنے آپ سے منسوب کیا ہے ، کیونکہ ان میں سے بعض خلفاء حقیقت میں رسول خدا کے خلیفہ نہیں تھے تاکہ وہ ان کی لیاقت کو اپنے آپ سے منسوب کرتے ، جب کہ اکثر روایات میں جیسا کہ اس آیت ”وانذر عشیرتک الاقربین“ کے ذیل میں جو روایت وارد ہوئی ہے اور قصہ انذار سے مشہور ہے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) نے اس حدیث میں حضرت علی (علیہ السلام) کو خطاب کرکے فرمایا : ” انت اخی و وصیی و خلیفتی فیکم“ (۵) اس میں آنحضرت نے حضرت علی (علیہ السلام) کی خلافت کو اپنے آپ سے منسوب کیا ہے ۔ جابر بن سمرة اور سفینہ کی روایت کو جمع کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے جابر بن سمرہ کی روایت میں بارہ اماموں کی برحق ولایت اورامامت کی پے در پے آنے کی خبر دی ہے جو کہ خداوند عالم کی طرف سے لوگوں پر منصوب ہوئے ہیں، لیکن حدیث سفینہ میں بہت سے لوگوں کے تیس سال تک آنے کی خبر دی گئی ہے جو خلافت کا ادعا کریں گے ، چاہے ان کا ادعا برحق ہو جیسے حضرت امام علی ابن ابی طالب(علیہ السلام) اور امام حسن (علیہ السلام) اور چاہے ان کا ادعا باطل ہو جیسے دوسرے افراد (۶) ۔
___________________
۱۔ مسند احمد ، ج۵، ص ۲۲۰۔
۲۔ شرح صحیح مسلم، ج۱۲، ص ۲۰۱۔ فتح الباری ، ج۱۳، ص ۱۸۲۔
۳۔ منھاج السنة، ج۲، ص ۲۲۳۔
۴۔ تہذیب التہذیب ، ج۴، ص ۱۳۔
۵۔ تاریخ ابن اثیر، حوادث سال سوم بعثت۔
۶۔ علی اصغر رضوانی، امام شناسی و پاسخ بہ شبھات(۲) ، ص ۲۹۴۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.