مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوال : کیا بعض شیعہ راویوں کی تضعیف کی وجہ سے حدیث ”اثناعشر خلیفہ“ کی تضعیف میں احمد کاتب کابیان قابل قبول ہے؟
جواب : احمد کاتب نے شیعوں کے حدیثی مآخذ میں روایات ” اثناعشر خلیفہ“ کی سند پر اعتراض کیا ہے اور بعض میں شیعہ راویوں کی تضعیف کے راستہ سے وارد ہوا ہے جب کہ جن راویوں کی اس نے تضعیف کی ہے وہ شیعوں کے نزدیک موثق ہیں،یہاں پر ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے :
۱۔ احمد کاتب نے بعض روایات کی تضعیف فقط اس وجہ سے کی ہے کہ ان روایات کی سند میں علی بن ابراہیم قمی اور ان کے والد موجود ہیں اور اس نے یہ الزام لگایا ہے کہ یہ دونوں مہمل ہیں، جب کہ علی بن ابراہیم بن ہاشم کا تیسری اور چوتھی صدی میں شیعوں کے مشایخ میں شمار ہوتا ہے ،ان کی عظمت اور جلالت کے لئے یہی کہدینا کافی ہے کہ یہ کلینی (رحمة اللہ علیہ) کے مشایخ میں سے ہیں اور کلینی نے ان سے بہت زیادہ روایتیںنقل کی ہیں اور ایک نقل کی بناء پرکلینی نے ان سے جو روایتیںنقل کی ہیں ان کی تعداد ۷۰۶۸ ہے (۱) اور ۷۱۴۰ روایات میں ان کا نام بیان ہوا ہے (۲) ۔
ان کے متعلق یہ بات علامہ حلی (رحمة اللہ علیہ) نے ”الخلاصہ“ میں بیان کی ہے (۳) ۔
لیکن ان کے والد ابراہیم بن ہاشم بھی ثقہ تھے ، ان کے بیٹے نے اپنی مشہور تفسیر علی بن ابراہیم قمی کے مقدمہ میں ان کی وثاقت کی طرف اشارہ کیا ہے ، وہ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں کہتے ہیں : جو بھی میری روایات کے سلسلہ سند میںموجود ہے وہ ثقہ ہے اور منجملہ جن سے انہوں نے زیادہ روایتیںنقل کی ہیں ان میں سے ایک ان کے والد ابراہیم بن ہاشم ہیں ۔
صاحب وسائل کے کلام سے استفادہ ہوتا ہے کہ جو بھی تفسیر علی بن ابراہیم کے سلسلہ سند میں واقع ہوا ہے وہ معصوم تک پہنچتا ہے اور علی بن ابراہیم نے ان کی وثاقت کی شہادت دی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں : علی بن ابراہیم نے بھی اپنی تفسیر کی احادیث کے ثابت ہونے کی شہادت دی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ ائمہ کے ثقات سے مروی ہیں (۴)
مرحوم آیت اللہ العظمی خویی نے صاحب وسائل کی اس عبارت کے اپنے تعلیقہ میں ذکرکیا ہے : صاحب وسائل نے جو کچھ سمجھا ہے وہ صحیح ہے ۔ علی بن ابراہیم اپنی تفسیر کے صحیح ہونے کو ثابت کرتے ہیں اور انہوں نے جو یہ کہا ہے کہ ان کی روایتیں ثابت ہیں اور معصومین (علیہم السلام) سے صادر ہوئی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب کی سب روایتیں معصومین کے شیعہ ، ثقات اور مشایخ کے ذریعہ سے ان تک پہنچی ہیں (۵) ۔
۲۔ کاتب نے حدیث ”اثنا عشرخلیفہ“ کی بعض روایات کے سلسلہ سند میں زرارہ کی وجہ سے تضعیف کی ہے جبکہ شیخ نے ”رجال“ میں ، علامہ حلی نے ”خلاصہ“ میں اور نجاسی نے ”رجال“ میں ان کی توثیق کی ہے ۔
نجاشی ان کے متعلق کہتے ہیں : ” ہمارے اصحاب کے شیخ اپنے زمانہ میں قاری، فقیہ، متکلم، شاعر اور ادیب تھے ۔ دین و دنیا کی تمام فضیلتیں آپ میں جمع ہوگئی تھیں، اور آپ اپنی روایتوں میں صادق و امین تھے (۶) ۔
کشی نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے : زمین کے راہنما اور دین کے علمبردار چار افراد ہیں ان میں سے ایک زرارہ ہیں (۷) اسی طرح آپ نے فرمایا: آپ کا اصحاب ائمہ کے فقیہ ترین افراد میں شمار ہوتا ہے (۸) ۔
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: اگر زرارہ نہ ہوتے تو میرا گمان یہ تھا کہ میرے والد کی تمام احادیث ختم ہوجاتی (۹) ۔اور دوسری احادیث میں امام نے زرارہ کے لئے خداوند عالم سے رحمت کی درخواست کی ہے (۱۰) ۔
۳۔ کاتب نے حدیث ”اثنا عشرخلیفہ“ کی بعض روایات کے سلسلہ سند میں برقی کی وجہ سے تضعیف کی ہے، جبکہ علمائے رجال نے باپ ، بیٹے دونوں کی توثیق کی ہے:
والد کے متعلق یعنی خالد برقی کی شیخ نے ”رجال“ میں اور علامہ نے ” الخلاصہ“ میں توثیق کی ہے ۔
شیخ طوسی کہتے ہیں: ”ثقہ من اصحاب ابی الحسن موسی (علیہ السلام)(۱۱) آپ ابوالحسن موسی (علیہ السلام) کے اصحاب اور مورد وثوق ہیں ۔
بیٹے کے متعلق یعنی احمد بن محمد بن خالد برقی کی بھی نجاشی نے ”رجال“ میں،شیخ نے ”فہرست“ میں اور علامہ نے ”الخلاصہ“ میں توثیق کی ہے (۱۲) ۔
۴۔ کاتب نے حدیث ”اثنا عشرخلیفہ“ کی بعض روایات کے سلسلہ سند میں سہل بن زیاد کی وجہ سے تضعیف کی ہے جب کہ کلینی (رحمة اللہ علیہ) نے ان پر اعتماد کیا ہے اور ان سے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں ۔ اور ان کی روایات میں بہت کم شذوذ واردہوئی ہے ۔ گویا شیخ طوسی نے ”رجال“ میں کلینی (رحمة اللہ علیہ) پر اعتماد کرتے ہوئے توثیق کی ہے ۔ لہذا سہل کے متعلق یہ تعبیر مشہور ہے : ”الامر فی السھل سھل“ (۱۳) ۔
_____________________
۱۔ رجوع کریں : معجم رجال الحدیث ، ج۱۸، ص ۵۴۔
۲۔ رجال نجاشی ، ص ۲۶۰، شمارہ ۶۸۰۔
۳۔ الخلاصہ، ص ۱۸۷۔
۴۔ فائدہ ششم از فوائد وسائل الشیعہ۔
۵۔ معجم رجال الحدیث ، ج۱ ، ص ۴۹ و ۵۰۔
۶۔ رجال نجاشی ، ص ۱۷۵، شمارہ ۴۶۳۔
۷۔ رجال کشی ، ص ۲۳۸۔
۸۔ رجال کشی ، ص ۲۳۸۔
۹۔ رجال شیخ طوسی ، ص ۳۶۳۔
۱۰۔ رجال شیخ طوسی ، ص ۳۶۳۔
۱۱۔ رجال شیخ طوسی ، ص ۳۶۳۔
۱۲۔ رجال نجاشی ، ص ۷۶۔ فہرست شیخ طوسی، ص ۶۲۔ خلاصہ علامہ، ص ۶۳۔
۱۳۔ علی اصغر رضوانی، امام شناسی و پاسخ بہ شبھات(۲) ، ص ۲۸۶۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.