مختصر جواب:
مفصل جواب:
آخر کار وہ حادثہ واقع ہوگیا جس کی خلقت کے شروع ہی سے اولیاء الہی کو خبر دی گئی تھی، یقینا وہ واقعہ جس کے وقوع ہونے سے پہلے ہی سن کر دل دہل جاتے تھے اور آنسوں جاری ہوجاتے تھے جب یہ واقعہ ٦١ ہجری کو عاشور کے دن رونما ہوا تودل میں ایک طرح کے شعلہ بھڑکنے لگے اور اس کے ساتھ دل پر ایک طرح کا سوگ وماتم بیٹھ گیا ۔ یہ واقعہ آزادگی کے بزرگ درس اور عزت و اعتقاد سے دفاع کی امید میں اس قدر گہرا تھا کہ روز عاشورا ہی سے آپ کے لئے عزاداری کی رسومات اور اشک و ماتم شروع ہوگئے اور آج بھی جاری و ساری ہیں اور دنیا کے آخری لمحوں تک جاری رہیں گے ، کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا ہے : "" ان لقتل الحسین حرارة فی قلوب المؤمنین لا تبرد ابدا"" ، یقینا شہادت حسین نے مومنین کے دلوں میں ایک حرارت ایجاد کردی ہے کہ جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہوگی (٢) ۔
اس حصے میں ہم امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد آپ پر ہونے والی عزاداری کے کچھ نمونے پیش کریں گے:
جس وقت اہل حرم کی نظریں شہداء پر پڑیں تو سب نے ایک چیخ ماری اور فریاد کی پھر جناب زینب نے نالہ و فریاد کرنا شروع کیا اور بہت غم واندوہ کی حالت میں فرمایا: "" وا محمداہ صلی علیک ملیک السمائ، ھذا حسین مرمل بالدمائ، مقطع الاعضاء وبناتک سبایا""، ائے محمد! خدا کادورود وسلام آپ پر۔ یہ (تمہارا )حسین خون میں غلطاں ہے اور اس کا لاشہ ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا ہے اور یہ تمہاری بیٹیاں ہیں جو اسیر ہیں ۔
جناب زینب نے اس طرح اپنے بھائی اور دوسرے شہداء کی مصیبت پر فریاد کی کہ تاریخ میں ملتا ہے:
فابکت واللہ کل عدو و صدیق۔ خدا کی قسم دوست اور دشمن نے بھی آپ پر گریہ کیا (٣) ۔
اس کے بعد اسیروں کے قافلے کو کوفہ اور شام لے جایا گیا اور جناب زین العابدین و جناب زینب کے خطبوں نے شام کی حالت کو بدل کر رکھ دیا اور سب لوگ یزید کے مخالف ہوگئے، یزید نے یہ حالت دیکھتے ہوئے پشیمانی اور ندامت کا اظہار کیا ایسی حالت میں حرم حسینی نے شام میں عزاداری وماتم بپا کیا اور اس طرح عزاداری کی کہ اس عزاداری میں اموی خاندان کی عورتوں نے بھی شرکت کی اوریہ عزاداری تین دن تک چلتی رہی (٤) ۔
ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے : جب امام حسین کی شہادت ہوگئی تو آپ کی ایک بیوی (بنام رباب)نے آپ کے لئے ایک مجلس ماتم بپا کی اور انہوں نے گریہ کرنا شروع کیا ان کے ساتھ تمام عورتوں او ر کنیروں نے بھی رونا شروع کردیا (١) ۔
امام باقر کے سامنے جو عزاداری ہوئی وہ پہلے بیان کردی گئی (٢) لیکن امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں جب شعراء اہل بیت آپ کے پاس آتے تھے تو آپ ان سے کہتے تھے کہ امام حسین کی شان میں مرثیہ پڑھو اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ وہ شعراء خود امام سے اجازت مانگتے تھے کہ ہم امام حسین کی شان میں مرثیہ پڑھنا چاہتے ہیں ۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ امام اپنے اہل حرم کو حکم دیتے تھے کہ پردہ کے پیچھے بیٹھ جائیںاور ان اشعار کو غور سے سنیں اورپھر اہل بیت کے خاص لوگ مل کر امام حسین کی عزاداری کرتے تھے ۔
ابوہارون مکفوف کا واقعہ پہلے بیان کرچکے ہیں اور یہاں دوسرے واقعات بیان کریں گے:
عبداللہ بن غالب کہتا ہے:امام صادق کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور ان کے سامنے حضرت امام حسین کی شان میں مرثیہ پڑھا ۔جب اس مرثیہ کی ایک حساس بیت پر پہنچا تو پشت پردہ سے ایک عورت کی آواز آئی جو روتے ہوئے فریاد کررہی تھیں ""یا ابتاہ""، ائے والد گرامی (٣) ۔
دعبل خزاعی (اہل بیت کا معروف شاعر)نقل کرتا ہے : میں امام حسین کی شہادت کے ایام میں امام رضا کی خدمت میں شرفیاب ہوا تو میں نے دیکھا کہ آپ بہت ہی غم واندھ کے حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے اصحاب بھی آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، جس وقت امام نے مجھے دیکھا تو فرمایا: خیرمقدم ائے دعبل! خوشا بحال ان لوگوں پر جو جو ہاتھ اور زبان سے ہماری مدد کرتے ہیں!۔
پھر آپ نے مجھے اپنے پاس بٹھاکر فرمایا: ائے دعبل! میں چاہتا ہوں کہ تم آج مرثیہ پڑھو،کیونکہ آج کے یہ ایام اہل بیت کے لئے بہت ہی غم واندوہ کے ایام ہیں اور ہمارے دشمنوں (خصوصا بنی امیہ)کی خوشی کے ایام ہیں (اس کے بعد امام علیہ السلام نے اہل بیت خصوصا امام حسین کے مصائب پر گریہ کرنے اوررلانے کے بارے میں کچھ باتیں بیان کیں) ۔
اس کے بعد امام رضا علیہ السلام نے کھڑے ہو کر ہمارے اور اپنے اہل حرم کے درمیان ایک پردہ ڈالدیا اور اپنے اہل بیت کو پردہ کے پیچھے بٹھایا،تاکہ وہ بھی اپنے جدامجد امام حسین کی مصیبت پر گریہ کریں(٤) پھر دعبل سے فرمایا اپنے اشعار پڑھواور انہوں نے امام حسین اوران کے اہل بیت کی شان میں مرثیہ پڑھا ان اشعار کے چند بیت یہ ہیں:
أَفاطِمُ لَوْ خِلْتِ الْحُسَيْنَ مُجَدَّلا *** وَ قَدْ ماتَ عَطْشاناً بِشَطِّ فُراتِ
إِذاً لَلَطَمْتِ الْخَدَّ فاطِمُ عِنْدَهُ *** وَ أَجْرَيْتِ دَمْعَ الْعَيْنِ فِي الْوَجَناتِ
أَفاطِمُ قُومِي يَا ابْنَةَ الْخَيْرِ وَ انْدُبِي *** نُجُومَ سَماوات بِأَرْضِ فَلاتِ
بَناتُ زِياد فِي الْقُصُورِ مَصُونَةُْ *** وَ آلُ رَسُولِ اللهِ مُنْهَتِكاتِ
وَ آلُ زِياد فِي الْحُصُونِ مَنِيعةٌ *** وَ آلُ رَسُولِ اللهِ فِي الْفَلَواتِ
سَأَبْكِيهِمْ ما ذَرَّ فِي الاَْرْضِ شارِقُ *** وَ نادى مُنادِى الْخَيْرِ لِلصَّلَواتِ
وَ مَا طَلَعَتْ شَمْسٌ وَ حانَ غُرُوبُها *** وَ بِاللَّيْلِ أَبْكيهِمْ وَ بِالْغَدَواتِ
ائے فاطمہ! اگرنہرفرات کے نردیک حسین تشنہ کام کے لاشہ کو خاک وخون میں غلطیدہ دیکھتیں تو ائے فاطمہ اس وقت آپ لاشے کے نزدیک اپنے چہرہ پر طمانچہ مارتیں اور اپنے آنسوں بہاتیں، ائے فاطمہ، دنیا کی بہترین بیٹی، اٹھو! اور اس خشک صحرا میں آسمانوں کے ستاروں پر آہ و فریاد کرو (میں کیوں نہ گریہ کروں جبکہ مجھے یاد آتا ہے کہ ) زیاد کی بیٹیاں اپنے محلوں میں امن و سکون میں ہیں لیکن رسول خدا کے اہل حرم پریشان ہیں ، جبکہ آل زیاد ،محکم قلعوں میں آرام سے ہیں ، لیکن رسول اللہ کے فرزند خشک اور تپتے ہوئے صحرا میں پریشان ہیں ۔ جی ہاں ! جب تک سورج اس دنیا پر اپنی روشنی ڈال رہا ہے اور نماز کے لئے موذن کی آواز بلند ہے اور جب تک آفتاب طلوع اور غروب کر رہا ہے اس وقت تک میں صبح و شام ان کے اوپر گریہ کروں گا (.....) ۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ شیعہ کبھی کبھی خاص مناسبتوں پر(جب حالات صحیح ہوتے تھے)کربلا میں امام حسین کے مزار پر عزاداری، گریہ وماتم کرتے تھے اور آئمہ بھی اس عمل پر خوش ہوتے تھے اور ان کی ترغیب کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر:
عبداللہ بن حماد بصری کہتا ہے: امام صادق نے مجھے سے فرمایا:مجھے خبرملی ہے کہ چودہ شعبان کو کوفہ اور اور دوسری جگہ کے رہنے والے امام حسین کے مزار پر جمع ہوکر نوحہ وماتم کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بھی نوحہ وماتم کرتی ہیں اوران میں سے کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں اور کچھ دوسرے لوگ حوادث کربلا کو ایک دوسرے کے سامنے بیان کرتے ہیں اور بہت سے لوگ نوحہ اور بہت سے مرثیہ پڑھتے ہیں ۔
میں نے عرض کیا: جو آپ فرمارہے ہیں میں نے بھی ایسا ہی دیکھا ہے ۔
امام نے فرمایا: خداوند عالم کا احسان ہے کہ اس نے لوگوں کے درمیان ایک گروہ کو پیدا کیا جو ہماری طرف آتے ہیں اور ہمارے شہداء پر مرثیہ پڑھتے ہیںاور ہمارے دشمن ان لوگوں کو قراردیا کہ جنہیں ہمارے خاندان(ہمارے دوست) اور دوسرے لوگ برا کہتے ہیں اور ان کے کام کو برا سمجھتے ہیں(٥) ۔
خلاصہ یہ ہے کہ امام حسین اور ان کے باوفا اصحاب پر عزاداری خصوصاماہ محرم اور عاشور ا میں شروع سے لے کر اب تک جاری ہے ، سید الشہداء کے چاہنے والے پوری دنیا میں ہر سال مختلف طرح سے آپ کی مصیبت میں ماتم کرتے ہیں اور امام حسین (علیہ السلام) اور ان کے باوفا اصحاب کے واقعات کو یاد کرکے آنسوں بہاتے ہیں (٦) ۔
اس حصے میں ہم امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد آپ پر ہونے والی عزاداری کے کچھ نمونے پیش کریں گے:
جس وقت اہل حرم کی نظریں شہداء پر پڑیں تو سب نے ایک چیخ ماری اور فریاد کی پھر جناب زینب نے نالہ و فریاد کرنا شروع کیا اور بہت غم واندوہ کی حالت میں فرمایا: "" وا محمداہ صلی علیک ملیک السمائ، ھذا حسین مرمل بالدمائ، مقطع الاعضاء وبناتک سبایا""، ائے محمد! خدا کادورود وسلام آپ پر۔ یہ (تمہارا )حسین خون میں غلطاں ہے اور اس کا لاشہ ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا ہے اور یہ تمہاری بیٹیاں ہیں جو اسیر ہیں ۔
جناب زینب نے اس طرح اپنے بھائی اور دوسرے شہداء کی مصیبت پر فریاد کی کہ تاریخ میں ملتا ہے:
فابکت واللہ کل عدو و صدیق۔ خدا کی قسم دوست اور دشمن نے بھی آپ پر گریہ کیا (٣) ۔
اس کے بعد اسیروں کے قافلے کو کوفہ اور شام لے جایا گیا اور جناب زین العابدین و جناب زینب کے خطبوں نے شام کی حالت کو بدل کر رکھ دیا اور سب لوگ یزید کے مخالف ہوگئے، یزید نے یہ حالت دیکھتے ہوئے پشیمانی اور ندامت کا اظہار کیا ایسی حالت میں حرم حسینی نے شام میں عزاداری وماتم بپا کیا اور اس طرح عزاداری کی کہ اس عزاداری میں اموی خاندان کی عورتوں نے بھی شرکت کی اوریہ عزاداری تین دن تک چلتی رہی (٤) ۔
ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے : جب امام حسین کی شہادت ہوگئی تو آپ کی ایک بیوی (بنام رباب)نے آپ کے لئے ایک مجلس ماتم بپا کی اور انہوں نے گریہ کرنا شروع کیا ان کے ساتھ تمام عورتوں او ر کنیروں نے بھی رونا شروع کردیا (١) ۔
امام باقر کے سامنے جو عزاداری ہوئی وہ پہلے بیان کردی گئی (٢) لیکن امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں جب شعراء اہل بیت آپ کے پاس آتے تھے تو آپ ان سے کہتے تھے کہ امام حسین کی شان میں مرثیہ پڑھو اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ وہ شعراء خود امام سے اجازت مانگتے تھے کہ ہم امام حسین کی شان میں مرثیہ پڑھنا چاہتے ہیں ۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ امام اپنے اہل حرم کو حکم دیتے تھے کہ پردہ کے پیچھے بیٹھ جائیںاور ان اشعار کو غور سے سنیں اورپھر اہل بیت کے خاص لوگ مل کر امام حسین کی عزاداری کرتے تھے ۔
ابوہارون مکفوف کا واقعہ پہلے بیان کرچکے ہیں اور یہاں دوسرے واقعات بیان کریں گے:
عبداللہ بن غالب کہتا ہے:امام صادق کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور ان کے سامنے حضرت امام حسین کی شان میں مرثیہ پڑھا ۔جب اس مرثیہ کی ایک حساس بیت پر پہنچا تو پشت پردہ سے ایک عورت کی آواز آئی جو روتے ہوئے فریاد کررہی تھیں ""یا ابتاہ""، ائے والد گرامی (٣) ۔
دعبل خزاعی (اہل بیت کا معروف شاعر)نقل کرتا ہے : میں امام حسین کی شہادت کے ایام میں امام رضا کی خدمت میں شرفیاب ہوا تو میں نے دیکھا کہ آپ بہت ہی غم واندھ کے حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے اصحاب بھی آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، جس وقت امام نے مجھے دیکھا تو فرمایا: خیرمقدم ائے دعبل! خوشا بحال ان لوگوں پر جو جو ہاتھ اور زبان سے ہماری مدد کرتے ہیں!۔
پھر آپ نے مجھے اپنے پاس بٹھاکر فرمایا: ائے دعبل! میں چاہتا ہوں کہ تم آج مرثیہ پڑھو،کیونکہ آج کے یہ ایام اہل بیت کے لئے بہت ہی غم واندوہ کے ایام ہیں اور ہمارے دشمنوں (خصوصا بنی امیہ)کی خوشی کے ایام ہیں (اس کے بعد امام علیہ السلام نے اہل بیت خصوصا امام حسین کے مصائب پر گریہ کرنے اوررلانے کے بارے میں کچھ باتیں بیان کیں) ۔
اس کے بعد امام رضا علیہ السلام نے کھڑے ہو کر ہمارے اور اپنے اہل حرم کے درمیان ایک پردہ ڈالدیا اور اپنے اہل بیت کو پردہ کے پیچھے بٹھایا،تاکہ وہ بھی اپنے جدامجد امام حسین کی مصیبت پر گریہ کریں(٤) پھر دعبل سے فرمایا اپنے اشعار پڑھواور انہوں نے امام حسین اوران کے اہل بیت کی شان میں مرثیہ پڑھا ان اشعار کے چند بیت یہ ہیں:
أَفاطِمُ لَوْ خِلْتِ الْحُسَيْنَ مُجَدَّلا *** وَ قَدْ ماتَ عَطْشاناً بِشَطِّ فُراتِ
إِذاً لَلَطَمْتِ الْخَدَّ فاطِمُ عِنْدَهُ *** وَ أَجْرَيْتِ دَمْعَ الْعَيْنِ فِي الْوَجَناتِ
أَفاطِمُ قُومِي يَا ابْنَةَ الْخَيْرِ وَ انْدُبِي *** نُجُومَ سَماوات بِأَرْضِ فَلاتِ
بَناتُ زِياد فِي الْقُصُورِ مَصُونَةُْ *** وَ آلُ رَسُولِ اللهِ مُنْهَتِكاتِ
وَ آلُ زِياد فِي الْحُصُونِ مَنِيعةٌ *** وَ آلُ رَسُولِ اللهِ فِي الْفَلَواتِ
سَأَبْكِيهِمْ ما ذَرَّ فِي الاَْرْضِ شارِقُ *** وَ نادى مُنادِى الْخَيْرِ لِلصَّلَواتِ
وَ مَا طَلَعَتْ شَمْسٌ وَ حانَ غُرُوبُها *** وَ بِاللَّيْلِ أَبْكيهِمْ وَ بِالْغَدَواتِ
ائے فاطمہ! اگرنہرفرات کے نردیک حسین تشنہ کام کے لاشہ کو خاک وخون میں غلطیدہ دیکھتیں تو ائے فاطمہ اس وقت آپ لاشے کے نزدیک اپنے چہرہ پر طمانچہ مارتیں اور اپنے آنسوں بہاتیں، ائے فاطمہ، دنیا کی بہترین بیٹی، اٹھو! اور اس خشک صحرا میں آسمانوں کے ستاروں پر آہ و فریاد کرو (میں کیوں نہ گریہ کروں جبکہ مجھے یاد آتا ہے کہ ) زیاد کی بیٹیاں اپنے محلوں میں امن و سکون میں ہیں لیکن رسول خدا کے اہل حرم پریشان ہیں ، جبکہ آل زیاد ،محکم قلعوں میں آرام سے ہیں ، لیکن رسول اللہ کے فرزند خشک اور تپتے ہوئے صحرا میں پریشان ہیں ۔ جی ہاں ! جب تک سورج اس دنیا پر اپنی روشنی ڈال رہا ہے اور نماز کے لئے موذن کی آواز بلند ہے اور جب تک آفتاب طلوع اور غروب کر رہا ہے اس وقت تک میں صبح و شام ان کے اوپر گریہ کروں گا (.....) ۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ شیعہ کبھی کبھی خاص مناسبتوں پر(جب حالات صحیح ہوتے تھے)کربلا میں امام حسین کے مزار پر عزاداری، گریہ وماتم کرتے تھے اور آئمہ بھی اس عمل پر خوش ہوتے تھے اور ان کی ترغیب کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر:
عبداللہ بن حماد بصری کہتا ہے: امام صادق نے مجھے سے فرمایا:مجھے خبرملی ہے کہ چودہ شعبان کو کوفہ اور اور دوسری جگہ کے رہنے والے امام حسین کے مزار پر جمع ہوکر نوحہ وماتم کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بھی نوحہ وماتم کرتی ہیں اوران میں سے کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں اور کچھ دوسرے لوگ حوادث کربلا کو ایک دوسرے کے سامنے بیان کرتے ہیں اور بہت سے لوگ نوحہ اور بہت سے مرثیہ پڑھتے ہیں ۔
میں نے عرض کیا: جو آپ فرمارہے ہیں میں نے بھی ایسا ہی دیکھا ہے ۔
امام نے فرمایا: خداوند عالم کا احسان ہے کہ اس نے لوگوں کے درمیان ایک گروہ کو پیدا کیا جو ہماری طرف آتے ہیں اور ہمارے شہداء پر مرثیہ پڑھتے ہیںاور ہمارے دشمن ان لوگوں کو قراردیا کہ جنہیں ہمارے خاندان(ہمارے دوست) اور دوسرے لوگ برا کہتے ہیں اور ان کے کام کو برا سمجھتے ہیں(٥) ۔
خلاصہ یہ ہے کہ امام حسین اور ان کے باوفا اصحاب پر عزاداری خصوصاماہ محرم اور عاشور ا میں شروع سے لے کر اب تک جاری ہے ، سید الشہداء کے چاہنے والے پوری دنیا میں ہر سال مختلف طرح سے آپ کی مصیبت میں ماتم کرتے ہیں اور امام حسین (علیہ السلام) اور ان کے باوفا اصحاب کے واقعات کو یاد کرکے آنسوں بہاتے ہیں (٦) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.